بھارت ایکسپریس–
بایوٹیکنالوجی انجینئرنگ کی طالبہ کی حیثیت سے مونیکایادو نے مشاہدہ کیا کہ کئی گریجویٹ طلبہ کو نظریے کو رو بہ عمل لانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے انہیں اسکول کے طلبہ کے لیے ورکشاپ منعقد کرنے کی ترغیب ملی جہاں ان طلبہ نے اپنے تعلیمی کریئر کے آغاز میں ہی نظریات کو عملی اقدام سے جوڑنے اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کے لیے عملی تربیت پر مبنی سرگرمیوں اور ماڈل سازی کے ذریعے سائنس کو دریافت کیا۔ ان طلبہ کی دلچسپی نے یادو کو ریسپائر ایکسپیریئنشللرننگ (آر ای ایل) قائم کرنے کی ترغیب دی۔ یہ ایک ایسی اسٹارٹ اپ کمپنی ہے جو سر دست دستیاب سیکھنے کے آلات کے استعمال کے ذریعہ طلبہ کے لیے جامع اسٹیم (سائنس ، ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ اور ریاضی )شعبہ جات اور روبوٹِکس میں تعلیمی پروگرام دستیاب کرواتی ہے۔
یادوبتاتی ہیں ’’میں نے پچھلے نو برسوں میں اسٹیم اور روبوٹِکس کِٹس تیار کی ہیں اور شہری اور دیہی اسکولوں میںکفایتی ٹِنکرنگ لَیبس(ایسا ورک اسپیس جہاں بچے اپنے خیالات کا استعمال کرسکیں اور دستیاب سرگرمیوں کے توسط سے اختراعی مہارتیں سیکھ سکیں)قائم کیے ہیں۔ مزید برآں، انجینئرنگ میں خواتین کی ایک مضبوط وکیل کے طور پر میں نوجوان لڑکیوں کواسٹیم شعبہ جات میں آگے بڑھنے کی ترغیب دینے کے لیے ’گرلس ڈو سائنس ‘ نامی پہل کی قیادت کر رہی ہوں۔‘‘
ہندوستان کی گیارہ ریاستوں میں ۹۰۰ سے زیادہ اختراعی تجربہ گاہوں کی مدد سے احمد آباد میں واقع اس اسٹارٹ اپ کمپنی کی مدد سے اب تک آٹھ لاکھ سے زیادہ طلبہ استفادہ کر چکے ہیں ۔
یادو انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) کی فیض یافتہ ہیں جو قلیل مدتی دوروں کے ذریعہ امریکہ میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ پیشہ ور افراد کو جوڑنے والا امریکی محکمہ خارجہ کا اوّلین پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام ہے۔ وہ’ ہِڈِن نو مور-ویمن ان اسٹیم ‘ ۲۰۲۳ گروپ کا حصہ بنیں ۔ ’ہِیڈن نو مور- ویمن ان اسٹیم‘ ۲۰۳۰ گروپ میں حصہ لیا۔ فلم ’ہیڈن فیگرس‘سے متاثراس آئی وی ایل پی کامقصدتحقیق اور ترقی، تعلیم و تدریس، قیادت اور عوامی پالیسی سازی کے ذریعےاسٹیم میں خواتین کے تعاون کا جائزہ لینا تھا۔
پیشِ خدمت ہیں یادو سے لیے گئے ایک انٹرویو کے بعض اقتباسات۔
اسکول کے آغاز میں ہی جامع اسٹیم تعلیمی حل متعارف کرانا کیوں ضروری ہے؟
اسکول میں شروعاتی دور میں ہی اسٹیم تعلیم کو متعارف کرانا اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ زندگی بھر سیکھنے کی عادات اور فیصلہ سازی، منطق اور نظم و ضبط جیسی ضروری مہارتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ اپنی ابتدائی ورکشاپوں کے دوران میں نے دیکھا کہ جب طلبہ کو دریافت کرنے اور تخلیق کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں تو وہ کس طرح ترقی کرتے ہیں اور اس طرح بروقت سیکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
جب ہم نے روایتی سائنس لیبس کو ’انٹرایکٹیو ڈو اِٹ یورسیلف کٹس‘ اور تربیت یافتہ اساتذہ کے ساتھ متحرک اسٹیم لیبس میں تبدیل کر دیا تو طلبہ پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ ایک دور افتادہ گاؤں، جہاں کے لوگ کان کنی سے وابستہ ہیں، کے اسکول میں ایک غیر معمولی تبدیلی واقع ہوئی۔ یہاں کی طالبات جن کے پاس پہلے محدود تعلیمی وسائل تھے وہ ہماری اسٹیم لیبس میں قابل تجدید توانائی، روبوٹکس اور پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی ایس) کے بارے میں سیکھنے لگیں۔سولر پینل کٹس بنانے اور عام سے روبوٹ بنانے میں ان کے جوش و خروش کا مشاہدہ کرنا ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا۔
آپ نے ان چیزوں کو طبقات کے درمیان کس طرح سے متعارف کروایا ہے؟
ہم نے علم طبیعیات ، علم کیمیا ، علم الحیات ، روبوٹکس اور کوڈنگ جیسے شعبوں میں ۱۵۰ سے زیادہ متعامل تجربات کے ذریعہ اپنی اسٹیم تجربہ گاہ کو طبقات تک پہنچایا ہے۔ ہمارا مقصد طلبہ میں منطقی سوچ اور تصورات کے عملی اطلاق کو فروغ دینا ہے۔
ہماری تجربہ گاہیں متحرک ، پائیدار اور شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے مختلف عمر کے گروپوں میں آسان سیٹ اپ کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ ہم متعامل بورڈ گیمس اور سرگرمیوں کے ذریعہ ایس ڈی جی ایس، غذائیت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات کو شامل کرتے ہیں ۔ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کے لیے حکومت اور صنعت کے رہنماؤں کے ساتھ بھی اشتراک کرتے ہیں۔
کیا آپ ہمیں ان ٹولس کے بارے میں مزید بتا سکتی ہیں؟ وہ کس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں؟
ہمارےاسٹیم ٹولس اسکولوں اور طبقات کی سیکھنے کی مخصوص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں ۔ ہم مخصوص لرننگ کے تقاضوں کو سمجھنے یا جاننے کے لیے ایک ابتدائی بیس لائن سروے کرتے ہیں، جو ہمارے ٹولس اور وسائل کو حسب ضرورت تیار کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ ہم مقامی زبانوں میں مواد بھی فراہم کرتے ہیں، جس سے سیکھنے کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔
ہمیںآئی وی ایل پی کے دوران اپنے تجربات کے بارے میں بتائیں۔اسٹیم شعبہ جات کے معلّم کے طور پر اس میں شرکت نے آپ کی کیسے مدد کی؟
اسٹیم میں خواتین کو اکثر وبیشتر اعتماد اور تنہائی سے متعلق چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آئی وی ایل پی نے خواتین کو مساوی جذبوں اور چیلنجوں سے جوڑ کر، نیز کمیونٹی اور حمایت کے احساس کو فروغ دے کر ان مسائل کو حل کیا ہے۔ اس پروگرام نے افرادی قوت میں خواتین کی بہتر رسائی اور مساوی شرکت کی ضرورت کو بھی تقویت فراہم کی ہے۔پروگرام میں حصہ لینے کا تجربہ متمول کرنے والا تجربہ تھا۔ اس نے مجھے نیٹ ورک بنانے اور دنیا بھر سے اسٹیم کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ۳۹ دیگر خواتین کے ساتھ اپنے تجربات کا اشتراک کرنے میں مدد کی، جو کہ ناقابل یقین حد تک متاثر کن تھا۔
اسٹیم شعبہ جات میں مزید خواتین کو فروغ دینے کے مقصد سے امریکی حکومت کی مضبوط پالیسیوں اور کام کی جگہوں کا مشاہدہ کرنا چشم کشا تھا۔ اس نے شمولیت اور رسائی پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ہمارےآر ای ایل پروگراموں کو ڈیزائن کرنے سے متعلق میرا نقطہ نظر بدل دیا۔ ہمارے ٹولس میں خواتین سائنسدانوں، محققین، انجینئرس اور گھریلو خواتین کی منصفانہ نمائندگی بھی شامل ہے، جس سے اس امر کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ لڑکیاں خود کو ان کرداروں میں دیکھ سکیں۔
رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ وہ مختصر کہانیاں لکھنے کے علاوہ افسانوی ادب کا ترجمہ بھی کرتی ہیں۔
بھارت ایکسپریس–
اسمبلی انتخابات کے لیے کل 10 ہزار 900 امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کیے تھے۔…
جماعت اسلامی ہند کے مرکزی وفد نے نائب صدر ملک معتصم خان کی قیادت میں…
سنگھم اگین، جو اجے دیوگن کے کیرئیر کی سب سے بڑی اوپنر بن گئی ہے،…
یووا چیتنا کے ذریعہ 7 نومبر 1966 کو ’گورکشا آندولن‘میں ہلاک ہونے والے گائے کے…
ایم سی ڈی کے میئر کے عہدہ کا انتخاب گزشتہ چھ ماہ سے زیر التوا…
وزیر اعظم نریندر مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پرایکس پر لکھا کہ "میں کینیڈا…