قومی

Taliban bans women from health studies: اسلام مردوعورت کیلئے یکساں تعلیم اور حقوق کا علمبردار، اس لئے طالبان کا خواتین کی نرسنگ ایجوکیشن پر پابندی شرمناک:ڈاکٹر راجیشور سنگھ

موجودہ دور میں سیاسی رہنماوں کی ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ روزانہ صبح صبح اٹھ کر اخبارات ضرور دیکھتے ہیں ،حالانکہ ایسا کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے،اور جو لوگ کرتے ہیں وہ بھی زیادہ تر اپنی خبروں کو دیکھنے کیلئے ہی ایسا کرتے ہیں۔بہت کم ایسے ہیں جو ملکی وعالمی مسائل سے آگاہی کیلئے یومیہ کی بنیاد پر اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ان میں سے ایک نام یوپی کے سروجنی نگر سے بی جے پی کے رکن اسمبلی ڈاکٹر راجیشور سنگھ کا ہے ۔جنہوں نے آج اخبارات کو پڑھنے اور ان میں طالبان کے ایک نئے فیصلے سے حیرانی درج کرائی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک لمبا پوسٹ بھی لکھا ہے جس میں طالبان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ایم ایل اے راجیشور سنگھ لکھتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے بیٹیوں کی نرسنگ کی تعلیم پر پابندی کی خبر آج کے اخبارات میں شائع ہوئی،یہ  چونکا دینے والی ہے۔خواتین کی نرسنگ ایجوکیشن پر طالبان کی طرف سے لگائی گئی پابندی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور 21ویں صدی میں جب جمہوریت اور لبرل ازم سب سے اہم ہے، یہ قدم تہذیب کو تاریک دور میں لے جانے والا ہے۔ایک طرف، خواتین جیسے فائٹر پائلٹ (شیوانگی سنگھ)، خلاباز (کلپنا چاولہ، سنیتا ولیمز) اور سیاست دان جیسے جیسنڈا آرڈرن (نیوزی لینڈ)، انجیلا مرکل (جرمنی)، سحر مرادووا (مولڈووا) اور ایلن جانسن سرلیف (لائبیریا) اپنے شعبوں میں نئی ​​بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔دوسری طرف طالبان کے ہاتھوں خواتین کو گھروں کی چہاردیواری تک محدود رکھا جا رہا ہے، انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، یہ بہت بڑا تضاد ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ طالبان کی حکومت نے خواتین کو نہ صرف تعلیم سے محروم رکھا ہے بلکہ ان سے عوامی زندگی میں حصہ لینے، کام کرنے اور آزادانہ سفر کرنے جیسے بنیادی حقوق بھی چھین لیے ہیں۔ خواتین کے لیے یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ باہر نکلتے وقت مرد سرپرست رکھیں، اور وہ اپنے خاندان کی مالی کفالت کے حق سے بھی محروم ہیں۔مزید برآں، خواتین کو طالبان کے سخت ضابطوں کی وجہ سے ملازمتوں کی تلاش میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، خاص طور پر صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبوں میں جہاں ان کی شراکت پوری دنیا میں یکساں طور پر اہم ہے، یہ سب ان کے بنیادی انسانی حقوق پر حملہ ہے۔ ایسے اقدامات نہ صرف توہین آمیز ہیں بلکہ معاشرے کی ترقی کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔

خواتین نے سائنس اور امن میں نوبل انعامات جیتے ہیں (میری کیوری، ملالہ یوسفزئی)، سربراہان مملکت بنی ہیں، اور ان شعبوں میں سبقت حاصل کی ہیں جو کبھی ان کے لیے حد سے زیادہ سمجھے جاتے تھے۔ پھر بھی یہ کیسا مذاق ہے کہ طالبان جیسی حکومت میں انہیں تعلیم اور مواقع سے محروم رکھا جا رہا ہے۔میں تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ طالبان کے اس شرمناک اقدام کی پرزور مذمت کریں۔ یہ اقدام نہ صرف خواتین کے خلاف ہے بلکہ انسانی حقوق، جمہوریت اور ترقی کے بھی خلاف ہے۔22ویں صدی کی طرف ہمارے قدم ہماری آنے والی نسلوں کو پسماندہ صدیوں میں نہیں بھیج سکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کر اس ظلم کی مخالفت کریں۔

مزید برآں، میں مسلم ممالک اور تنظیموں سے بھی اپیل کرتا ہوں جیسے کہ اسلامی تعاون کی تنظیم، مسلم علماء کی بین الاقوامی یونین، اور عرب لیگ، طالبان کے اس اقدام کی شدید مذمت کریں۔ اسلام میں مرد اور عورت یکساں تعلیم اور حقوق کے حقدار ہیں اور اس طرح کی قدامت پسند تشریحات معاشرے کی ترقی کے خلاف ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان مظالم کے خلاف متحد ہو جائیں۔تمام جمہوری ممالک، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مسلم علماء کو اس کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی فورمز کو بھی طالبان کے اس ظلم کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہئے۔ نیز مسلم مذہبی رہنماؤں کو بھی اس نظریے کی مخالفت کرنی چاہیے، کیونکہ اسلام مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں تعلیم اور حقوق کی حمایت کرتا ہے۔ہمیں اپنی آواز بلند کرنی چاہیے، طالبان کے اس اقدام کی شدید مذمت کرنی چاہیے، اور سمجھنا چاہیے کہ ایسی قدامت پسند مذہبی تشریحات اور ان کا نفاذ ترقی اور انسانی حقوق کے لیے خطرناک ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خواتین کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts

MoS IT: ہندوستان میں استعمال ہونے والے تقریباً 99 فیصد موبائل فون اب ملک میں بن رہے ہیں: جتن پرساد

ہندوستان میں استعمال ہونے والے تقریباً 99% موبائل فون اب ملک میں تیار کیے جا…

15 minutes ago