-بھارت ایکسپریس
نئی دہلی: ”ملک کے سماجی تانے بانے سے چھیڑچھاڑملک کو تباہ کردے گی، اس طرح کی کوئی بھی کوشش ملک کے جمہوری ڈھانچہ کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے، ہندوستان صدیوں سے مختلف مذاہب اورتہذیبوں کا مرکز رہاہے، امن واتحاد، رواداری اس کی روشن روایت رہی ہے، مگراب کچھ طاقتیں اقتدارکے زعم میں صدیوں پرانی اس روایت کو ختم کرنے کے درپے ہیں، امن واتحادسے زیادہ انہیں اپنا سیاسی مفاداوراقتدارعزیزہے، یہی وجہ ہے کہ آئے دن نئے نئے مذہبی نوعیت کے ایشوزکو اچھال کرامن واخوت کی زرخیززمین میں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں اس سماجی تانے بانے کو اب توڑدینے کی سازش ہورہی ہے جس نے اس ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو ایک ساتھ جوڑکے رکھا ہواہے، یہ ایک ایسی ڈورہے جو خدانخواستہ اگر ٹوٹ گئی تو نہ صرف ہماری صدیوں پرانی تہذیب کے لئے یہ ایک بڑاخسارہ ہوگابلکہ یہ روش ملک کو تباہی اوربربادی کی اس راہ پر ڈال دے گی جہاں سے واپسی آسان نہ ہوگی“۔ یہ گرانقدرالفاظ وہ ہیں جو جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آج یہاں کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگوکے دوران کہیں۔
ہندوستان کی آزادی کے لئے پھانسی پرلٹک گئے علماء
جمعیۃعلماء ہند کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اسے ایک صدی قبل ملک کی آزادی کے لئے علماء نے ایک پلیٹ فارم کے طورپرقائم کیا تھا، چنانچہ علماء نے پوری قوت کے ساتھ آزادی وطن کے لئے جان ہتھیلی پررکھ کرجیلوں کوآباد کرتے رہے اورپھانسی کے پھندے پر لٹکتے رہے، جان وطن عزیز ہندوستان کے لئے دیتے رہے یہاں تک کہ ملک آزادہوگیااورملک آزادہوتے ہی جمعیۃعلماء ہند نے اپنے آپ کوسیاست سے الگ کرلیا،لیکن چونکہ اس کے اغراض ومقاصدمیں ملک کی سالمیت، اتحاداوربھائی چارہ کے فروغ کو اولیت حاصل ہے، اس لئے آزادی کے بعد مذہب کی بنیادپر ملک کی تقسیم کی اس نے پوری طاقت سے مخالفت کی تھی، انہوں نے وضاحت کی کہ جمعیۃعلماء ہند اپنے بزرگوں کے مرتب کردہ رہنمااصولوں پر آج بھی عمل پیرا ہیں وہ اپنا ہر کام مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر کرتی ہے، حال ہی میں میوات میں جن بے گھروں کو گھروں کی تعمیر کے لئے زمین اورامدادی رقم فراہم کی گئی ہے ان میں تین ہندوخاندان بھی شامل ہیں، یہ تنظیم برسوں سے میرٹ کی بنیادپر ہر سال ضرورت مند بچوں کو اسکالرشپ دے رہی ہے اس میں بڑی تعدادمیں ہندوبچے بھی شامل ہوتے ہیں اس لئے کہ جمعیۃعلماء ہند کا بنیادی مقصدانسانیت کی فلاح اوربہودکے لئے کام کرنا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف میڈیا کی جانب سے بھی تنگ کی جارہی ہے زمین
میڈیا کے کچھ نمائندوں سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا گیا ہے، اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ ملک کا پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کا ایک بڑا حلقہ ایمانداری سے اپنا محاسبہ کرے اوراس بات کا جائزہ لے کہ پچھلے کچھ برسوں سے اس نے اپنے لئے جولائن اختیارکی ہے آیا، وہ صحیح ہے یاغلط اورکیا یہ لائن ملک کے مفاد میں ہے؟، مولانا مدنی نے پارلیمنٹ میں ہوئی حالیہ دراندازی اورہنگامہ آرائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، لیکن میڈیا نے اسے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی۔ بلاشبہ یہ ایک سنگین معاملہ تھا مگرمیڈیا نے کوئی سوال نہیں کیا، لیکن اگر ساگرشرما کی جگہ کوئی شکیل احمد ہوتا تو یہی میڈیا آسمان سرپراٹھالیتا اورجرم کرنے والوں پر ہی نہیں بلکہ ایک پوری کمیونٹی پرزمین تنگ کردی جاتی، آئین کی بالادستی کے حوالہ سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست کے نام پر اب جوکچھ ہورہا ہے، اس سے آئین کی بالادستی پرسوالیہ نشان لگ چکا ہے، سوال یہ ہے کہ جس آئین کی دہائی دی جاتی ہے یہ کوئی نیا آئین ہے یا پھروہ ہے جسے آزادی کے بعد تیارکیا گیا تھا، اگر یہ آزادی کے بعد لایا گیا آئین ہے توپھر ہمیں یہ تسلیم کرناپڑے گا کہ اب جس طرح ہرمسئلہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے اورتفریقی رویہ اختیارکیا جارہا ہے یہ سراسرغلط اورملک کے امن واتحادکے لئے انتہائی تباہ کن ہے۔
فرقہ وارانہ صف بندی کی منصوبہ بند کوشش
جمعیۃ علماء ہند کے صدرنے مزید کہا کہ ملک کا آئین اپنے شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتا ہے، اس میں تمام شہریوں کویکساں اختیاردیئے گئے ہیں اورکسی بھی شہری یا فرقہ یا طبقہ کے خلاف امتیازی رویہ اختیارکئے جانے سے منع کیا گیا ہے، مگر ہویہ رہاہے کہ ایک مخصوص فرقہ کو احساس کمتری میں مبتلارکھنے کی غرض سے آئین کے فراہم کردہ تمام اختیارات اس سے چھین کراکثریت کو خوش کرنے کی پالیسی پرکھلے طورپرعمل ہو رہا ہے، ایک ایشوختم نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا ایشو اٹھاکرایسا پروپیگنڈہ شروع کروادیا جاتا ہے، جس سے فرقہ وارانہ صف بندی قائم رہے، آئین ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی فراہم کرتاہے اس کے باوجود تسلسل کے ساتھ یکساں سول کوڈلانے کا شوشہ چھوڑاجاتاہے، دوسرے جرائم کے لئے آئی پی سی کی جو دفعات وہ تمام شہریوں پر یکساں طورپر نافذکی جاتی ہیں، البتہ خانگی معاملات خاص طورپر شادی بیاہ، طلاق وغیرہ کے ضابطے الگ الگ ہیں اوریہ صدیوں پرانے ہیں، خودہندوں میں مختلف برادریوں میں شادی اورطلاق کے الگ الگ طریقہ اوررسومات رائج ہیں، مگر اس سے ملک کے امن وسلامتی پر کبھی کوئی خطرہ نہیں پیداہوا، یکساں سول کوڈلانے کا مطلب یہ ہے کہ سب کے لئے خانگی قانون ایک جیساہوگا، لیکن تاثریہ دیاجاتاہے کہ یہ مسلمانوں کے لئے ہی لایا جا رہا ہے۔
گیان واپی اورمتھرا شاہی عید گاہ کے اے ایس آئی سروے پر کہی یہ بڑی بات
انہوں نے آگے کہا کہ بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں واضح طورپر یہ بات کہی ہے کہ مندرتوڑکر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، لیکن اب کچھ فرقہ پرست لوگ اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں اوراسے اکثریت کی فتح کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔ گیان واپی مسجد کو لیکر آئے حالیہ فیصلہ پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہمیں یقین ہے کہ اگر ایمانداری سے سروے ہواتووہاں سے کچھ بھی نکلے گالیکناب جس طرح یہ نیاتنازعہ کھڑاکیاگیاوہ 1991میں عبادت گاہوں کے تحفظ پر پارلیمنٹ کے ذریعہ لائے گئے قانون کے منافی ہے جس میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کے علاوہ ایسی کسی بھی عبادت گاہ اب کوئی تنازعہ نہیں کھڑاکیا جائے گاجو 1947سے موجودہے۔ مولانا ارشد مدنی نے یہ پوچھے جانے پرکہ کیا جمعیۃعلماء ہند اس معاملہ کو سپریم کورٹ لے جائے گی توانہوں نے جواب دیا کہ قانون نے ہمیں جہاں تک جانے کا راستہ دیاہے ہم وہاں تک جائیں گے، سیکولرپارٹیوں کی اس کو لیکر خاموشی پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو سیاسی پارٹی یہ قانون لے کر آئی تھی اسے بہرحال اس پر بولنا چاہئے، فلسطین تنازعہ پر بعض صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے ایک بارپھر کہا کہ تاریخ کو جانناضروری ہے اسرائیل نے وہاں غاصبانہ قبضہ کررکھاہے اورغزہ کے لوگ اپنی زمین کو آزادکرانے کی جنگ لڑرہے ہیں انہیں دہشت گردکہنا غلط ہے۔ملک کے موجودہ حالات کے تناظرمیں کئے گئے سوالات کے جوابات میں انہوں نے کہاکہ سیکولرزم کامطلب یہ ہے کہ مملکت کا کوئی مذہب نہیں ہوگامگر افسوس کہ اب ملک میں سب کچھ اس کے الٹ ہورہا ہے۔ انہوں نے دوٹوک لہجہ میں کہا کہ اب ملک کے تمام شہریوں کو نہیں اکثریت کو خوش کرنے کی سیاست ہورہی ہے، ملک کے سیکولرڈھانچہ اورجمہوریت کے لئے یہ تباہ کن ہے،انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے ہمیں تھال میں سجاکر آزادی نہیں پیش کی بلکہ اس کے لئے ہمارے اکابرین کو بے پناہ قربانیاں دینی پڑی ہیں، اس قربانی میں بلالحاظ مذہب وملت سب شامل تھے، ہمارے پاس افرادی قوت اورصلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے ضرورت یہ ہے کہ اس قوت اورصلاحیت کامثبت استعمال کیا جائے، مگر اب نفرت اورتفریق کی یہ جوسیاست شروع ہوئی ہے یہ ملک کو ترقی نہیں تباہی کے راستہ پر لے جانے والی ہے۔
-بھارت ایکسپریس
آنے والے سرمائی اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ 26 نومبر کو یوم دستور…
مدھیہ پردیش کے ڈپٹی سی ایم راجیندر شکلا نے کہا کہ اب ایم پی میں…
ہندوستان سمیت دنیا بھر میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اتوار کو الیکشن منعقد…
ایم ایل اے راجیشور سنگھ نے منگل کوٹوئٹر پر لکھا، محترم اکھلیش جی، پہلے آپ…
سومی علی نے جواب دیا، 'ان کو قتل کیا گیا تھا اور اسے خودکشی کا…
سی ایم یوگی نے عوام سے کہا کہ انہیں اپنی طاقت کا احساس دلائیں، ذات…