جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوچکا ہے، امیدواروں کی لسٹ بھی جاری کی جارہی ہیں ،لیکن کانگریس پارٹی ابھی تک یہ طے نہیں کرپائی ہے کہ اسے اس انتخاب میں کیا کرنا ہے۔اکیلے چلنا ہے یا اتحاد کرنا ہے ،حالانکہ وقت بہت کم ہے اس کے باوجود بہت زیادہ متحرک نظر نہیں آرہی ہے،حالانکہ بیشتر پارٹیاں ریلیاں پر ریلیاں کررہی ہیں اور کانگریس ابھی تک سوچ ہی رہی ہے،شاید راہل اور ملکارجن کھرگے کے آج کے کشمیر دورے کے بعد حالات میں تبدیلی آئے لیکن فی الحال یہی صورتحال ہے۔نہ جوش ہے نہ جنون ہے ،نہ گہما گہمی اور ناہی کوئی حکمت عملی ہے، ہوسکتا ہے یہ سب فی الحال دماغ میں ہو، ذہن میں قید ہو،زمین پر اتارنے کیلئے کانگریس کو مزید وقت درکار ہو،لیکن الیکشن کمیشن نے اس بار وقت ہی بہت کم دیا ہے۔
جموں و کشمیر میں کانگریس کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس زمین پر کوئی مضبوط کیڈر نہیں ہے جو اسے بڑھا سکے۔ یہاں تک کہ اگر دہلی سے کوئی حکم آتا ہے تو اس پر عمل درآمد کے لیے زمین پر کافی کارکن موجود نہیں ہوتے۔ اس کے اوپر جہاں دیگر پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی بنانا شروع کر دی ہے وہیں ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں، جبکہ کانگریس کااب تک روڈ میپ دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔ ماہرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ جہاں پی ڈی پی اور این سی کے پارٹی دفاتر میں گہما گہمی کا زبردست ماحول ہے، وہیں جموں و کشمیر میں کانگریس کے دفاتر ٹھنڈے ہیں اور وہاں ابھی تک کوئی انتخابی شور نہیں سنائی دے رہا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کانگریس اتحاد کی تلاش میں ہے۔ اس نے اتر پردیش میں ایس پی کے ساتھ اتحاد کرکے کچھ ایسا ہی دکھایا ہے۔
کانگریس کئی سالوں سے اقتدار سے دور ہے
کانگریس کے سامنے ایک اور چیلنج یہ ہے کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے جموں و کشمیر میں اقتدار سے محروم رہی ہے۔ اس کے آخری وزیر اعلیٰ 2005 اور 2008 کے درمیان تھے، وہ عہدہ بھی کچھ عرصہ غلام نبی آزاد کے پاس رہا جو اب پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ ایسے میں طویل سیاسی جلاوطنی کارکنوں کے حوصلے کو بھی متاثر کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب جموں و کشمیر میں حکومت بنا کر خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن کانگریس کو احساس ہے کہ اکیلے الیکشن لڑ کر حکومت بنانا مشکل ہو سکتا ہے، ایسے میں این سی سے ہاتھ ملا کر ہی یہ راستہ عبور کیا جا سکتا ہے۔
حد بندی کے بعد حالات بدل گئے
جموں کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد جو حد بندی ہوئی ہے، اس کی وجہ سے پورے علاقے کی صورتحال بدل گئی ہے۔ اب جموں بھی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے جا رہا ہے، وہاں کی نشستوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ کشمیر کے علاقوں میں نیشنل کانفرنس کی اچھی موجودگی ہے جبکہ جموں کے علاقے میں کانگریس کو زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔ خود جموں میں بی جے پی کو پہلے ہی مضبوط سمجھا جاتا ہے، اس لیے کانگریس اسے چیلنج کرنے کے لیے نیشنل کانفرنس کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ ایسا کرنے سے اگر این سی کو جموں میں کانگریس کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو دوسری طرف کشمیر میں نیشنل کانفرنس کانگریس کی کمزوری کو پورا کرنے کا کام کر سکتی ہے۔
درحقیقت، حد بندی کے بعد جموں و کشمیر میں نشستوں کی کل تعداد اب 114 رہ گئی ہے، جس میں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کی 24 نشستیں شامل ہیں۔ اگر ان 24 سیٹوں کو ہٹا دیا جائے تو 90 اسمبلی سیٹیں رہ جاتی ہیں۔ پہلے یہ تعداد 83 تھی، اس لیے کل سات سیٹیں بڑھی ہیں۔ یہاں بھی جموں ڈویژن میں 6 نشستوں کا اضافہ ہوا ہے جبکہ کشمیر ڈویژن میں ایک نشست کا اضافہ ہوا ہے۔ جموں خطے میں 43 سیٹیں ہونے جا رہی ہیں اور اب کشمیر ڈویژن میں 47 سیٹیں ہوں گی۔
بھارت ایکسپریس۔
اداکار کے کے مینن آنے والی اسٹریمنگ سیریز ’سیٹاڈیل: ہنی بنی‘ میں نظر آئیں گے،…
نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے ٹسٹ میچ کی پہلی اننگ میں سرفراز خان کچھ خاص…
پورنیہ کے ایس پی کارتیکیہ شرما نے گرفتار ملزم کے بارے میں مزید کہا کہ…
کانگریس صدر ملیکا ارجن کھڑگے نے کرناٹک میں وزیراعلیٰ سدارمیا اورنائب وزیراعلیٰ ڈی کے شیوکمارکے…
اس سے قبل 15 اکتوبر کو مغربی جکارتہ میں درجنوں گھروں میں آگ لگنے سے…
ہردیپ سنگھ پوری نے کہا کہ پی ایم نریندر مودی کی قیادت میں، ہندوستان میں…