جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کی تیاریاں شباب پر ہیں ،تمام پارٹیاں اپنی پوری کوشش کررہی ہیں کہ ان کا ووٹ بینک زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوسکے ،اس بیچ کانگریس کے دفتر میں کافی خاموشی دیکھنے کو مل رہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ کشمیر میں کانگریس کی اچھی قیادت کا فقدان ماناجارہا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جموں کشمیر میں کانگریس کا کوئی بڑا چہرہ بھی اب نظر نہیں آرہا ہے جس کی وجہ سے کانگریس کے کارکنان میں جوش وجنون کی کیفیت پیدا ہوسکے۔حالانکہ کانگریس بھی اس حقیقت سے پریشان ہے کہ جموں و کشمیر میں اس کا کوئی بڑا مقبول چہرہ نہیں ہے۔ کسی زمانے میں غلام نبی آزاد اس خلا کو پر کرتے تھے۔ وہ نہ صرف جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ تھے، اس کے ساتھ ان کی مقبولیت بھی کافی زیادہ تھی۔ ایسے میں انہوں نے دوسری جماعتوں سے رابطہ برقرار رکھنے اور عوام سے رابطہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن وہی غلام نبی آزاد اب کانگریس چھوڑ چکے ہیں۔ انہوں نے جموں و کشمیر میں اپنی پارٹی بنائی ہے۔ ان کی جانب سے ان کی پارٹی کا نام ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی رکھا گیا ہے۔اب آزاد نے کانگریس کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے بی جے پی مخالف ووٹوں میں مزید بکھرنے کا امکان ہے۔ اور ایسا ہوتا ہے تو سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ آزاد کی مقبولیت پورے جموں و کشمیر میں یکساں نہیں ہے، لیکن پیر پنجال اور چناب کے علاقوں میں ان کی گرفت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ ایسے میں جموں کے ان علاقوں میں بھی جہاں بی جے پی کو کسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، آزاد کی پارٹی اب کانگریس کو نقصان پہنچانے کا کام کر سکتی ہے۔ ایسے میں کانگریس ووٹوں کے بکھرنے کو روکنے کے لیے اتحاد کی تلاش میں ہے۔
دراصل جموں و کشمیر میں کانگریس سال بہ سال کمزور ہوتی جارہی ہے۔ اسمبلی انتخابات کے اعداد و شمار بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ جو پارٹی کبھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی تھی، اب مقامی جماعتوں کے رحم و کرم پر آچکی ہے۔ اسے دوسری پارٹیوں سے اضافی سیٹوں کا مطالبہ کرنا پڑتا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ کانگریس اکیلے الیکشن نہیں لڑے گی، اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ نیشنل کانفرنس کے ساتھ اتحاد کرے گی۔ یہ وہ وجوہات ہیں جو بتاتی ہیں کہ اتحاد کانگریس کے لیے ایک بڑی مجبوری کیوں ہے۔
کانگریس کو اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ جموں و کشمیر میں اپنے طور پر اس کی کارکردگی کچھ خاص نہیں رہی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ 2014 کے انتخابات میں اس نے اپنی تیسری بدترین کارکردگی پیش کی تھی۔ دراصل 2014 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس صرف 12 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی جبکہ اس سے پہلے 1996 میں اس نے 7 سیٹیں جیتی تھیں۔ 1977 میں یہ صرف 11 نشستوں تک محدود تھی۔ ایسے میں وقت کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں پارٹی کی کارکردگی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ کانگریس اس حقیقت کو لے کر بھی پریشان ہے کہ جموں و کشمیر میں اس کا ووٹ شیئر صرف ایک بار 30 فیصد سے زیادہ تھا، ورنہ ہر الیکشن میں یہ 20 فیصد کے قریب دیکھا گیا۔
بھارت ایکسپریس۔
ڈاکٹر راجیشور سنگھ نے ملک کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنانے اور…
لندن میں امریکی سفارت خانہ نے کہا کہ مقامی افسرلندن میں امریکی سفارت خانہ کے…
ایڈوکیٹ وجے اگروال نے اس کیس کا ہندوستان میں کوئلہ گھوٹالہ اور کینیڈا کے کیسوں…
بی جے پی لیڈرونود تاؤڑے نے ووٹنگ والے دن ان الزامات کوخارج کرتے ہوئے کہا…
سپریم کورٹ نے ادھیاندھی اسٹالن کو فروری تک نچلی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دیتے…
آسٹریلیا کو ابھی تک پانچ وکٹ کا نقصان ہوچکا ہے۔ محمد سراج نے مچل مارش…