نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی نے اترپردیش سرکارکے ذریعہ کانوڑیاترا کے روٹ پر مذہبی شناخت ظاہرکرنے والے حکم پراپنے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے اسے مذہب کی آڑمیں سیاست کے نئے کھیل سے تعبیرکیا اورکہا کہ یہ ایک سراسرامتیازی اورفرقہ وارانہ نوعیت کا فیصلہ ہے، اس فیصلے سے ملک دشمن عناصرکوفائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا اوراس نئے فرمان کی وجہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوشدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جس سے آئین میں دئیے گئے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے کل اپنی لیگل ٹیم کی ایک میٹنگ طلب کی ہے، جس میں اس غیرآئینی، غیر قانونی اعلان کے قانونی پہلوؤں پرغوروخوض کیا جائے گا۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء ہند اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن داخل کرسکتی ہے۔
سرکاری حکم کی خلاف ورزی کون کرسکتا ہے؟ مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ پہلے مظفرنگرانتظامیہ کی طرف سے اس طرح کا فرمان جاری ہوا، مگر اب اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کا باضابطہ حکم نامہ سامنے آگیا ہے، جس میں نہ صرف مظفرنگراوراس کے اطراف بلکہ کانوڑیاترا کے راستے پرجتنے بھی پھل سبزی فروش، ڈھابوں اورہوٹلوں کے مالکان ہیں، ان سب کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے نام کا کارڈ اپنی دکان، ڈھابہ یا ہوٹل پرچسپاں کریں۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ہم تک ایسی معلومات پہنچی ہیں کہ بہت سے ڈھابوں اورہوٹلوں کے مینیجریا مالکان جومسلمان تھے کانوڑ یاترا کے دوران انہیں کام پرآنے سے منع کردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ سرکاری فرمان کی خلاف ورزی کا حوصلہ کون کر سکتا ہے۔
آئین میں تمام شہریوں کو یکساں آزادی
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے تمام شہریوں کو آئین میں اس بات کی مکمل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جو چاہیں پہنیں،جو چاہیں کھائیں، ان کی ذاتی پسند میں کوئی حائل نہ ہوگا،کیوں کہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔آئین میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ ملک کے کسی شہری کے ساتھ اس کے مذہب اور رنگ ونسل کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا اور ہر شہری کے ساتھ یکساں اور مساویانہ سلوک کیا جائے گا۔مگر پچھلے کچھ برسوں کے دوران حکمرانی کا جو طرز عمل سامنے آیا، اس میں مذہب کی بنیاد پرامتیاز عام بات ہوگئی ہے۔بلکہ اب ایسا لگتا ہے کہ حکمران کا حکم ہی اب آئین اور قانون ہے۔
مذہبی شناخت کو ظاہرکرنے س پیدا ہوگی منافرت: مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ یہ کس قدرافسوسناک بات ہے کہ حکومت سازی کے وقت آئین کے نام پرحلف لیا جاتا ہے، مگرحلف لینے کے بعد اسی آئین کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا ہم تمام مذاہب کا احترام کر تے ہیں اوردنیا کا کوئی مذہب یہ نہیں کہتا کہ آپ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے نفرت کریں۔ یہ کوئی پہلی کانوڑ یاترا نہیں ہے، ایک زمانے سے یہ یاترا نکلتی رہی ہے، مگر پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جب کسی شہری کو اپنی مذہبی شناخت ظاہرکرنے مجبور کیا گیا ہو۔ بلکہ یاترا کے دوران عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مسلمان جگہ جگہ کانوڑ یاتریوں کے لئے پانی اورلنگرکا اہتمام کرتے آئے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ پہلی بارکہ اس طرح کا فرمان جاری کرکے ایک مخصوص فرقے کو الگ تھلگ کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کے درمیان امتیاز اورمنافرت پھیلانے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے۔