بھارت ایکسپریس۔
دارالحکومت دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک اقلیتی ادارہ ہے، جس میں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ماس کمیونی کیشن، انجنیئرنگ اوربی ڈی ایس کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ تاہم اس ادارے کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہاں اردو زبان پرخصوصی توجہ دی جاتی ہے اورکئی برسوں سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہرطالب علم کے لئے اردو پڑھنا لازمی ہے۔ یعنی غیراردو داں طبقہ بھی اگرجامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لیتا ہے تو اسے بھی اردو زبان سیکھنا ضروری ہے۔ جامعہ کی اس کوشش کو اردو زبان کے فروغ میں اہم قراردیا جاتا ہے، لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلرپروفیسرنجمہ اخترہی اب اسے نظراندازکرتی ہوئی نظرآرہی ہیں۔ جبکہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ نے جامعہ کی صد سالہ تقریب میں اردو زبان میں تقریرکرکے اردو داں طبقے کا دل جیت لیا۔
دراصل، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صدسالہ تقریب کے موقع پر23 جولائی کو وگیان بھون اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ تقریب میں جامعہ کی وائس چانسلرنجمہ اخترنے اپنی تقریرسے اردوں داں طبقے کو مایوس کیا۔ انہوں نے وگیان بھون میں کی گئی اپنی پوری تقریر خالص ہندی زبان میں کی جبکہ شام کے وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ جلسے میں انگریزی زبان میں تقریر کی۔ سال 2019 اور 2020 کے فارغین کے لئے منعقدہ اس تقریب کے مہمان خصوصی لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے اردو کے بہترین اور خوبصورت الفاظ کا استعمال کرکے جامعہ کی روایت اور وراثت کی آبرو رکھ لی۔
اس دوران یہ سوال سب سے اہم ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی 2019 سے نمائندگی کرنے والی پروفیسر نجمہ اختر جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بھی تعلیم یافتہ ہیں،کیا وہ اردو زبان سے نابلد ہیں؟ کیونکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلرنجمہ اختر کو اردو زبان سے دلچسپی نہیں ہے یا پھر وہ احساس کمتری کا شکار ہیں۔ کسی بھی ادارے کا سربراہ اگرخود اپنی روایت کے تحفظ کے لئے اقدامات نہیں کرتا ہے تو پھروہ دوسروں سے اس کی کیسے امید کرسکتا ہے؟
واضح رہے کہ پروفیسر نجمہ اخترکچھ دنوں قبل بھی اردو زبان کو نظرانداز کئے جانے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن چکی ہیں۔ دراصل حال ہی میں جامعہ ملیہ میں سینٹنری گیٹ کی تعمیر کی گئی ہے، جس میں اردو کو نظرانداز کردیا گیا ہے جبکہ جامعہ کی روایت رہی ہے کہ اس کے ہردروازے کوقوم کے کسی اہم شخصیت کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جامعہ کی سینٹینری گیٹ کے علاوہ تمام دروازے پر اردو زبان میں اس کا نام درج کیا گیا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ نجمہ اختر کے دور میں جان بوجھ کر اردو کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ دراصل، جامعہ ملیہ اسلامیہ اقلیتی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کی تہذیب وثقافت کی مثال دی جاتی ہے۔ لیکن آج عالم یہ ہے کہ جامعہ کی وائس چانسلر ہی جامعہ کی تہذیب وثقافت اور جامعہ کی روایت سے بغاوت کررہی ہیں ۔ ایسے میں یہ سوال پھر سے اہم ہوجاتا ہے کہ کیا سچ میں نجمہ اختر اردو سے نابلد ہیں یا پھر کسی دباو میں شعوری طور پر اردو کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کررہی ہیں؟۔
بھارت ایکسپریس۔
روپ وے پراجیکٹ پر وشنو دیوی سنگھرش سمیتی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تشکیل…
اپیندر رائے نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’’چیف…
ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…
وزیر اعظم نریندر مودی کا کویت کا دو روزہ دورہ ختم ہو گیا ہے اور…
مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور
بہار میں گرینڈ الائنس حکومت کے قیام کے بعد خواتین کو 2500 روپے ماہانہ دینے…