قومی

Investing with Gender Sensitivity : صنفی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے سرمایہ کاری

تحریر: برٹن بولاگ

تحقیق سے انکشاف ہوتا ہے کہ خاتون کاروباری پیشہ وروں  کو اپنے ہم منصب مردوں کے مقابلہ کچھ زیادہ ہی مسائل در پیش ہوتے ہیں۔ اکثر خواتین کو رہنمائی بھی محدود حاصل ہوتی ہے ۔ اپنا کاروبار شروع کرنے یا پھر اسے فروغ دینے کے لیے مالی امداد حاصل کرنے میں جو دشواریاں ہوتی ہیں وہ تو الگ ہیں۔ عالمی معیشت فورم کی جانب سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن، جو کہ عالمی بینک کے نجی شعبہ کی ایک شاخ ہے، کے حوالے سے  بیان کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں خواتین کاروباری 11.4 ارب ڈالر سے زائد کے قرضے کے فرق سے دو چار ہیں ۔یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ عوامی بینکوں کی جانب سے دیے گئے کُل تجارتی قرض کا محض 5.2 فی صد قرض ہی خاتون کاروباری پیشہ وروں کو دستیاب ہوا ہے۔

صحت سے متعلق دیکھ بھال فراہم کرنے میں مصروف  خاتون کاروباری پیشہ وروں کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے امریکی ایجنسی برائے  بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) نے کووڈ۔19عالمی وباء کے دوران شروع کئے گئے پروگرام میں مزید توسیع کی ہے۔ سسٹین ایبل اَیکسیس ٹو مارکیٹس اینڈ ریسورسیز برائےاننو ویٹو ڈلیوری آف ہیلتھ کیئر (سمرِدھ )کے نام سے موسوم اس پروگرام کے تحت مخلوط مالیات، تکنیکی اعانت، تجارتی مشورے، نیز بازار تک رسائی میں امداد شامل ہیں تاکہ صحتی دیکھ بھال کے اعلیٰ حل کو بازار میں پیش کیا جا سکے۔

یو ایس  ایڈ انڈیا کے دفترِ صحت میں سینئر ہیلتھ لیڈ کے عہدے پر فائز نیتا راؤ بتاتی ہیں ’’جیسے ہی کووِڈ۔19 پھیلا  صحتی دیکھ بھال کے اعلیٰ اور معیاری حل کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ لہذا یو ایس ایڈ اور ہمارے شرکاء نےہندوستان کے فعال نجی شعبہ میں موجود اختراعی صلاحیتوں اور مہارت کا فائدہ اٹھانے کا ارادہ کیا تاکہ کووڈ۔ 19پر قابو پانے کے لیے پائیدار اور مؤثر حل تلاش کیے جاسکیں۔ ‘‘

ہندوستان میں اختراعی مالیات کے وسیع تجربے کی بنیاد پر یو ایس ایڈ نے حکومت ِ ہند ، ترقیاتی شرکاء، مالیاتی اداروں ، صحت دیکھ بھال کے شعبے میں سرگرم کاروباروں ، انکیوبیٹرس اور تدریسی اداروں کے ساتھ تعاون کیااور ان کو مالی امداد فراہم کی تاکہ وہ بازار پر مبنی مجربنسخوں کی اعانت کرسکیں۔ ورنہ عام حالات میں وہ مالیات کے فقدان اور بازار تک رسائی حاصل نہ ہونے کے سبب فروغ پانے سے قاصر رہتے۔ اس طرح سمرِدھ کی شروعات ہوئی جس کا مقصد صحتی دیکھ بھال کے ایسے حل کی مالی امداد کرنا تھا جو کہ سستے ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر بھی مفید ہوں۔

آئی پی ای گلوبل کے سینئر ڈائریکٹر ہمانشو سکا بتاتے ہیں ’’جیسے جیسے کووڈ۔19  کا بحران کم ہوتا گیا ہم نے محسوس کیا کہ ہم اس پروگرام کو صحتی دیکھ بھال کی دیگر ضروریات کے لیے کام میں لا سکتے ہیں۔ سمرِدھ کی بدولت محروم طبقات کی جیب سے صحت دیکھ بھال پر ہونے والے اخراجات میں کمی واقع ہوئی ہے کیوں کہ اس سے استفادہ کرنے والے افراد کو اعلیٰ معیار کی صحت خدمات کم قیمت پر مہیا ہوتی ہیں۔ ‘‘

واضح رہے کہ آئی پی ای گلوبل ایک ہندوستانی  کمپنی ہے جو کہ یو اس ایڈ کے مالی تعاون سے سمرِدھ  پراجیکٹ کو نافذ کررہی ہے۔

ٹول کِٹ  برائے صنفی توازن

صنفی لنس سرمایہ کاری ٹول کِٹ (اس سے مراد آلات اور وسائل کا مجموعہ ہے جس کا استعمال  مخصوص مقصد کے لیے کیا جاتا ہے )کے ذریعہ سے خواتین قائدین یا پھر خواتین کی ضروریات پر مرکوز درخواستوں کی جانچ پڑتال میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لائحہ عمل سے ان تجارتی انکیوبیٹر یا تنظیموں تک رسائی حاصل کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے جو  خاتون کاروباری پیشہ وروں کی امداد کرتی ہیں اور مالی امداد کے لیے بہتر امیدواروں کی نشاندہی بھی ممکن ہوتی ہے۔

سمرِدھ کے نئے لائحہ عمل کے نتیجے میں گذشتہ تین برسوں میں اس سے مالی امداد یافتہ خواتین کے زیر قیادت اور خواتین پر مرکوز کاروباروں میں تقریباً دوگنا کا اضافہ ہوا ہے ۔2021 میں16فی صد سے لے کر آج کی تاریخ میں 31 فی صد تک۔ یہی نہیں سمرِدھ کی جانب سے مذکورہ اداروں کو دی جانے والی مالی امداد بھی 8فی صد سے بڑھ کر 18 فی صد ہوگئی ہے۔

خواتین کے زیر قیادت کارباروں کو مالی امداد فراہم کرنا محض انصاف کے تقاضوں سے بھی بالا تر ہے۔ پروگرام کے منتظمین کاماننا ہے کہ خواتین کی شمولیت کی کم شرح درحقیقت پسماندہ طبقات کے لیے  صحتی دیکھ بھال کی خدمات بہتر بنانے کا موقع گنوانے کے مترادف ہے۔

سمرِدھ کی ترجمان ونینا سوری کہتی ہیں’’خواتین گھروں اور طبقات میں صحت  کی  دیکھ بھال کے معاملات میں اصل فیصلہ کرنے والی ہوتی ہیں۔ لہذا انہیں پسماندہ طبقات کی صحت کی  دیکھ بھال میں تفاوت  اور ضروریات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔خاتون  کاروباری  پیشہ ور اکثر ایسے اختراعی حل پیش کرتی ہیں  جس کی رسائی آخری شخص تک ہو سکتی ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کی رسائی کو خواتین نہ صرف بہتر بنا سکتی ہیں بلکہ مقامی حالات اور ضروریات کے مطابق طبقات کی سطح پر پائیدار اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘

سرل ڈیزائنس کی شریک  بانی اور سی ای او سہانی موہن ایک ایسی ہی مثال ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’ میں جب ایک انویسٹمینٹ بینک میں کام کررہی تھی تو اس وقت مجھے ہندوستان میں خواتین کی حیضی نظافت کی زبوں حالی کے بارے میں معلوم ہوا۔ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین حیض کے دوران کپڑوں کے ٹکڑے، ریت اور بھوسی کا استعمال کرتی تھیں۔لہذا انہوں نے سرل ڈیزاینس کی شروعات کی جو کہ خواتین کی حیضی  نظافت کے اعلیٰ معیار والے اور سستے مصنوعات تیار کرتی ہے۔ کمپنی ان مصنوعات کو تیار کرنے کے لیے  مشینیں بھی فراہم کرتی ہے۔  کووڈ۔19عالمی وباء کے دوران سمرِدھ کی مالی اعانت سے موہن کی سماجی کاروباری تنظیم نے اپنی موجودہ مشینوں میں کچھ خاص ترمیمات کیں جن سے وہ تین پلائی والے سرجیکل ماسک تیار کرنے لگیں۔

کامیابی کی کہانیاں

سمرِدھ عوامی ، نجی اور رفاہی فنڈس کا امتزاج ۔کے مخلوط مالیاتی ماڈل پر کام کرتا ہے جس سے بازار پر مبنی اقدامات کا مالی تعاون کیا جا سکے۔ اس کے پاس 370 ملین امریکی ڈالرس کا فنڈ موجود ہے جس میں سے 35 ملین امریکی ڈالر  صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں کے لیے مختص ہیں۔ جبکہ بقیہ رقم سے کاروباری اداروں کو قرض دیا جاتا ہے یا پھر سود میں رعایت دی جاتی ہے جس سے بالآخر برابر برابر کی سرمایہ کاری ممکن ہوپاتی ہے۔

اس پروگرام کے تحت اب تک متعدد ایسے پراجیکٹوں  کو مالی امداد فراہم کی جا چکی ہے جو کہ سستے اور چھوٹے تشخیص کرنے والے اور علاج کرنے والے آلہ جات تیار کرتے ہیں جن کو دور دراز، نیز دیہی علاقوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان میں امراض قلب کے علاج میں کام آنے والا بغیر بجلی کے چلنے والا ڈیفلیبریٹر، 100 ڈالر قیمت کی جیبی ای سی جی مشین، زیریں سرخ روشنی سے ہیموگلوبن ناپنے والا آلہ اور قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو سانس لینے کے لیے کم قیمت والا کنٹینوس پازیٹو ایروے پریشر آلہ شامل ہیں۔

اس پروگرام نے مصنوعی ذہانت پر مبنی اسکریننگ ٹولس بنانے کے لیے بھی مالی امداد فراہم کی ہے۔ مثلاً پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ایکسروں کے اسکین کرنے کے سافٹ ویئرس اور موبائل فون کے ایسے خاص ایپس جو کھانسی کا تجزیہ کرکے مختلف امراض تنفس کی نشاندہی کر سکیں۔ اس پروگرام کے تحت ایسے ڈرونس بھی تیار کئے گئے ہیں جن کی مدد سے پہاڑی اور دیہی علاقوں میں صحت خدمات پہنچائی جا سکتی ہیں۔ یہ ڈرونس ان دور دراز علاقوں سے خون کے اور دیگر نمونہ حاصل کرکے تجربہ گاہوں تک لاتے ہیں اور مریضوں کو دوائیاں پہنچاتے ہیں۔

2020 کے اوائل میں سمرِدھ  کا قیام عمل میں آیا۔ اب تک اس پراجیکٹ کے تحت 90 سے زائد صحتی دیکھ بھال کے کاروباروں کو مالی اعانت فراہم کی جا چکی ہے۔ ان میں اکثر اسٹارٹ اپس شامل ہیں جن کی قیادت مرد اور خواتین دونوں کر رہے ہیں۔ بسا اوقات ان کاروباروں کو گرانٹ دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے کاروبارکی مجرب مصنوعات یا خدمات کو دوسرے اور تیسرے درجہ کے شہروں اور دیہی علاقوں میں فروغ دے سکیں ۔ انہیں اس پروگرام کے زیر اہتمام مخلوط مالیاتی امداد  بھی فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے کاروبار کی مزید توسیع کرسکیں۔ جیسے جیسے وہ اپنے کاروبار کو وسعت دیتے جاتے ہیں ویسے ویسے اس پروگرام کے تحت ان کو مالی امداد دی جاتی  رہتی ہے تاکہ اکیوٹی سرمایہ کاری ممکن ہوسکے جس سے وہ اپنے کاروباروں کو عوامی اور نجی شعبوں تک پھیلا سکیں۔

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

Bharat Express

Recent Posts

Agreements signed with Kuwait: پی ایم مودی کے دورے کے دوران کویت کے ساتھ دفاع، ثقافت، کھیل سمیت کئی اہم شعبوں میں معاہدوں پرہوئے دستخط

ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…

7 hours ago

بھارت کو متحد کرنے کی پہل: ایم آر ایم نے بھاگوت کے پیغام کو قومی اتحاد کی بنیاد قرار دیا

مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور

8 hours ago