تحریر: چاروی اروڑا
ایک متحرک شراکت داری کا آغازکرتے ہوئے اسپیس انڈیا اور نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹرماہانہ فلکیات اور خلائی سائنس ورک شاپ کے ذریعےنوجوانوں کی فضائی تحقیق کے میدان میں رغبت پیدا کررہا ہے۔خلائی جستجو کی تحریک پیدا کرنے کے مقصد سے مئی ۲۰۲۴ء میں ہوئی یہ ورک شاپ نئی دہلی میں امیریکن سینٹر میں منعقد کی گئی جس کا عنوان تھا ’’ تیار ہو جا ؤ، اور خلائی اطلاق کی خاطر ہائیڈرو لک سسٹم بناؤ۔ ‘‘
اس ورکشاپ کے توسط سے ۱۳ سے ۱۸ برس کے طلبہ پرتوجہ مرکوزکی گئی، جنہوں نے دوگھنٹے کی ورکشاپ کے دوران تھیوری اور پریکٹکل دونوں کے ذریعہ فلکیات اور خلائی سائنس سے متعلق تعلیم حاصل کی۔ اسپیس انڈیا کے بانی اور چیئرمین سچن باہمبا نے بتایا کہ اس ورکشاپ کا مقصد ’’سائنس، فلکیات اور فضائی سائنس کو پُرلطف تصورات، خدمات اور پروگراموں کی مدد سے دلچسپ بنانا تھا۔‘‘
دو بدو مظاہرہ
جہاں تک نظریاتی حصے کا سوال ہے تو ورکشاپ میں ہائیڈرولکس کے بنیادی اصول بشمول پاسکل قانون اور ہائیڈرولک نظاموں میں طاقت کی وسعت جیسے موضوعات شامل تھے۔ ماہرین نے یہ دکھایا کہ ہائیڈرولکس کس طرح سادہ مگر موثر ماڈلس کا استعمال کرتے ہوئے اپنی حقیقی دنیا کی ایپلی کیشنس کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس بصری اپروچ نے طلبہ کو پیچیدہ تصورات کو آسانی سے سمجھنے میں مدد کی۔
بنیادی تھیوری کو بخوبی پڑھانے کے بعد شرکاء سے کہا گیا کہ وہ اب ہائیڈرولک اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے فضائی ماڈلس تخلیق کریں۔ بعد ازاں طلبہ کو یہ کام دیا گیا کہ وہ ہائیڈرولک نظام سے چلنے والا روبوٹ کا ہاتھ بنائیں اور ہوائی جہاز کے لینڈنگ گیئر کے طریقہ کار کا نمونہ تیار کریں ۔
تھیوری سے آگے
نظریاتی علم اور عملی ہنر کے امتزاج سے شرکاء نے فضائی ٹیکنالوجی میں غوطہ لگایا اور خلائی مشن میں ہائیڈرولکس کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ ہوئے۔ سیرین امن کہتے ہیں ’’مختلف اقسام کی مشینیں بنانے میں سب سے زیادہ لطف آیا۔ کلاس روم کے مقابلے مجھے آج ہائیڈرولکس کے تصورات کے ادراک میں زیادہ آسانی ہوئی کیوں کہ ہم نے اپنی توجہ ہائیڈرولکس پریکٹکل پر مرکوز کی۔‘‘ طلبہ نے تخلیق کے عمل کے دوران درپیش آنے والے مسائل پر آپس میں غور وفکر کر کے حل پیش کیے جس سے ٹیم ورک کی اہمیت ان پر اجاگر ہوئی۔
باہمبا بتاتے ہیں کہ امیریکن سینٹر سے شراکت کرنے کے دواہم مقاصد ہیں۔ ’’اول توطلبہ کو یہ باورکرانا ہے کہ مسئلہ چاہے کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہواس کوحل کیا جا سکتا ہے، نیزیہ کہ کتابوں سے حاصل شدہ علم کا اطلاق حقیقی دنیا میں کیا جا سکتا ہے۔‘‘ دوسری بات جس پرانہوں نے زوردیا وہ یہ ہے کہ طلبہ کو شروعاتی دورکی ڈیزائیننگ سکھانا چاہیے وہ بھی بغیربھاری بھرکم اورقیمتی آلہ جات کے۔
عملی مشقوں سے سیکھنا
ورکشاپ میں انجینئرنگ کےعملی تجربات پیش کیے گئے، جس میں شرکاء نے سیّال حرکیات کے بارے میں جانا، جو کہ بہت سی خلائی تخلیقات میں ایک بنیادی اصول ہے۔ نارائنی بھاردواج کہتی ہیں ’’دلچسپ عملی تجربات سے نہ صرف میں نے بہت کچھ سیکھا بلکہ میرا تعارف مستقبل کے ماہرفلکیات سے بھی ہوا۔‘‘ اسی طرح پریتی جیسوال کواس ورکشاپ کے ذریعہ سے ہی معلوم ہوا کہ ایک خلائی انجینئر کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اسکول کے فلکیات کلب کی رکن بھی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’مگرراکٹ کومختلف زایوں سے گھمانا اورراکٹ کے مختلف اجزاء کے بارے میں پہلی بار جاننا کافی تسلی بخش تجربہ رہا جوکہ کلاس روم میں پڑھایا نہیں گیا تھا۔‘‘
اس ورکشاپ میں بچوں کے والدین نے بھی شرکت کی۔ رتو ڈوگرا کا کہنا تھا ’’جتنی آسانی سے طلبہ کوسیّال حرکیات، ہائیڈرولکس اور میکینکس ایڈوانٹیج کے پیچیدہ تصورات کوسمجھایا گیا اس سے ان میں اس کے لیے ماڈل مظاہرہ کے ذریعہ سے ڈاٹا لاگنگ کرنے کی جستجو پیدا ہوئی۔ یہی تو تجربات پرمنحصرسیکھنے کے عمل کی خوبصورتی ہے۔‘‘
بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
روپ وے پراجیکٹ پر وشنو دیوی سنگھرش سمیتی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تشکیل…
اپیندر رائے نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’’چیف…
ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…
وزیر اعظم نریندر مودی کا کویت کا دو روزہ دورہ ختم ہو گیا ہے اور…
مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور
بہار میں گرینڈ الائنس حکومت کے قیام کے بعد خواتین کو 2500 روپے ماہانہ دینے…