ملک کا مشہو ومعروف اقلیتی تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، کسی تعارف کامحتاج نہیں ہے ۔ جامعہ کی اپنی شاندار تاریخ ہے ۔اس کی شناخت اور وراثت بھی بے مثا ل ہے۔ جامعہ کی انہیں وراثتوں میں سے ایک وراثت اردو زبان بھی ہے ،جس سے بانیان ِجامعہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے درودیوار کومزین کیا تھا ۔جس سے جامعہ کی فضاوں کو معطر کیا تھا ۔جس زبان کے ذریعے جامعہ کی آب وہوا میں ایک ایسی خوشبو گھول دی تھی جس سے آنے والی نسلوں کی افزائش ہوتی رہی۔ ایک مدت تک جامعہ کو اردو سے اور اردو کو جامعہ سے جوڑ کر دیکھا جاتا رہا ہے۔ چونکہ اردو کی آبیاری میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نے جو خدمات انجام دی ہیں، وہ تاریخ کا علیحدہ باب ہے ۔ لیکن آج عالم یہ ہے کہ جو اردو زبان جامعہ کی وراثت ،شناخت اور وقار کا حصہ تھی ،اسی زبان کو جامعہ میں انتظامی سطح پر نظرانداز کیا جارہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہی اردو والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور زبان کھولتے ہوئے ڈر رہے ہیں ۔
تازہ معاملہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صدسالہ تقریب میں وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کے کلیدی خطاب کا ہے ،جہاں انہوں نے شروع سے اخیر تک خالص ہندی زبان کا استعمال کیا اور اردو کو نظرانداز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں نئے دروازے پر اردو نہ ہونے کا معاملہ پہلے سے ہی سرخیوں میں ہے، اس بیچ پروفیسر نجمہ اختر نے اپنے خطاب کے ذریعے اس شک کو قریب قریب یقین میں بدل دیا ہے کہ جامعہ ملیہ میں اردو مخالف کسی منصوبے پر کام چل رہاہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابقہ ذمہ داران کو اکثر ایسے مواقع کی تلاش رہتی تھی جہاں وہ جامعہ کی وراثت اور جامعہ کی شناخت کو بڑے پیمانے پر پیش کرسکیں ۔ سالانہ کنوکیشن پر کلیدی خطاب میں زبان کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔لیکن اس بار پروفیسر نجمہ اختر جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے اردو ماحول سے نکل کرآئی ہیں ،انہوں نے اردو کے ساتھ جو سلوک کیا ہے ،اس سے بانیانِ جامعہ کی روح ضرور بے چین ہوئی ہوگی۔ لیکن اس سے زیادہ حیرانی والی بات یہ ہے کہ اس پورے عمل سے جامعہ کے شعبہ اردو کے بیشتر اساتذہ اور جامعہ سے منسلک اردو برادری کے لوگوں کو ذرہ بھی بے چینی نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ کچھ ایسے بھی اساتذہ ہیں جنہیں اس بات کا دکھ ہے ،لیکن وہ اس پر بولنے اور لب کھولنے سے ڈرتے ہیں ۔
بولنے سے ڈر رہے ہیں شعبہ اردو کے اساتذہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو کو نظر انداز کئے جانے کے سوال پر ایک نہیں، درجنوں پروفیسران جو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے فی الحال جڑے ہوئے ہیں یا سبکدوش ہوچکے ہیں ،ان سے بات کرکے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ لیکن ان تمام نے پوری ایمانداری کے ساتھ صدفیصد لاچاری کا اظہار کردیا۔ حالانکہ کچھ سینئر اساتذہ نے اپنے درد کا اظہار کیا ہے ،لیکن شرط لگادی ہے کہ میرا درد لوگوں تک ضرور پہنچائیے، نام نہیں ۔
میڈم کا ذاتی معاملہ بھی ہوسکتا ہے
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے سینئر استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام بانیان جامعہ اردو کے عاشق تھے ۔ جامعہ کی شناخت اردو سے رہی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر ہوں ، ڈاکٹر ذاکر حسین ہوں یا پھر پروفیسر محمد مجیب،سب اردو کے چاہنے والے تھے۔لیکن آج عالم یہ ہے کہ ان کی قائم کردہ شناخت کو مٹانے کی کوشش ہورہی ہے۔ تازہ معاملے میں میڈم کا ذاتی معاملہ بھی ہوسکتا ہے ۔ وہ حکومت کے سامنے سرخرو ہوناچاہتی ہوں ،یا پھر کچھ اور معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے جامعہ کے نئے سینٹنٹری گیٹ پر اردو کے نہ ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ انگریزی میں نام لکھنے کے بجائے اردو میں ”صدی دروازہ” لکھتے تو زیاہ مقبول ہوتا۔ اس سے لوگوں کو بولنے اور پڑھنے میں بھی آسانی ہوتی۔
شعوری طور پر کسی دباو میں آکر یہ رویہ اختیار کیاگیا ہے:پروفیسر انورپاشا
جامعہ ملیہ اسلامیہ سے جڑے ہوئے بیشتر اردو کے اساتذہ کی طرف سے انکار کےبعد جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اساتذہ سے بات کی تو انہوں نے کھل کر افسوس کا اظہار کیا ۔ جواہر لعل نہرو کے ایک سینئر ترین استاذ پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک مخصوص قسم کی یونیورسٹی ہے،جو قومی تحریک سے پیدا ہوئی ہے۔زبان کے طور پر اردو ایک قومی زبان رہی ہے اور اس قومی زبان کو جامعہ ملیہ کے حوالے سے نہ صرف اقلیتوں کے تعلیمی حقوق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اردو زبان کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،یہ دونوں ایسے ادارے رہے ہیں جہاں اردو کے نظام تعلیم کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ جامعہ کے جو سربراہان رہے ہیں، وہ بھی اردو کے بڑے اسکالرزرہے ہیں اور ان لوگوں کا ایک خواب تھا کہ اردو زبان کا جو جمہوری حق ہے، وہ ہمیشہ قائم رہےاور اس زبان کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے جاتے رہے ہیں اور ان اقدامات میں یہ بھی شامل ہے کہ یونیورسٹی کے جوسربراہان ہیں ، وہ یونیورسٹی کے جوخاص مواقع ہوتے ہیں ان میں اس زبان میں اپنے خیالات کے اظہار کی روایت کو قائم رکھے۔ جامعہ کے بیشتر وائس چانسلرز نے ایسا ہی کیا ہے۔ لیکن اب مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ جوموجودہ وائس چانسلر ہیں ،وہ شاید جامعہ کی اس روایت سے آگاہ نہیں ہیں ۔ یا شعوری طور پر کسی دباو میں آکر یہ رویہ اختیار کیا ہے۔ جامعہ ملیہ کی تقریب میں جامعہ کے طلبا کے سامنے (جو اردو بہت اچھی جانتے ہیں) ،خالص ہندی میں خطاب کرنا ،میرے خیال سے کسی دباو میں کسی منصوبے کی تکمیل کیلئے ایسا رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔
جامعہ ملیہ کی پہنچان اردو سے ہے:پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
جواہر لعل نہرویونیورسٹی کے ایک دوسرے سینئر ترین استاذ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا خطاب کسی بھی زبان ہوسکتا ہے ۔ لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پہنچان اردو سے ہے ، اس لئے اردو زبان میں وائس چانلسر کا ہوتا تو زیادہ مناسب تھا،جامعہ ملیہ کی انتظامیہ کو اور جامعہ کی وائس چانلسلر کو اردو زبان کا خاص خیال رکھنا چاہیے تھا ۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام نے جامعہ ملیہ کے دروازہ پر اردو نہ ہونے کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ایک غلطی ہے،اس لئے اس کی اصلاح فوری طور پر ہونی چاہیے ۔
ہر محاذ پر مجبور ہے جامعہ انتظامیہ: المنائی ایسوسی ایشن
جامعہ المنائی ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری بدر عالم نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی انتظامیہ ہرمحاذ پر مجبور ہے۔ جامعہ میں اردو کے کلچر پر مسلسل حملہ ہورہا ہے۔ حکومتی دباو مسلسل کام کررہا ہے ،جس کی وجہ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اوپر سے نیچے تک ہر کوئی ڈرا ہوا ہے کہ کہیں اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہوجائے۔ حکومت بھی جامعہ اور اردو کو نشانہ بناکر اکثریتی طبقہ کو یہ دکھانے کی کوشش کررہی ہے کہ ہم انہیں دبا رہے ہیں تاکہ حکومت کو سیاسی فائدہ مل سکے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بجٹ میں تخفیف اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے بجٹ میں اضافہ، جامعہ کے گیٹ سے اردو کا غائب ہونا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ پروفیسر نجمہ اختر کا خالص ہندی میں خطاب کرنا ،یہ سب کے سب ایک منصوبہ بندی ہے ،جس کے تحت جامعہ میں کام کروایا جارہا ہے۔
حکمت عملی سے کام لے رہی ہیں پروفیسر نجمہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بیشتر المنائی نے اس پورے معاملے پر افسوس کا اظہار کیاہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ پروفیسر نجمہ اختر کی حکمت عملی ہے جس کے تحت وہ جامعہ کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جامعہ کے ایک سینئر المنائی نے کہا کہ پروفیسر نجمہ اخترکے ہندی زبان میں خطاب سے حکومت یا وزارت خوش ہوتی ہے اور اس سے جامعہ کا بھلا ہوتا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ اور میرا خیال ہے کہ جامعہ کی وائس چانسلر اسی حکمت عملی کو اختیار کررہی ہیں ۔ وہ حکومت کو خوش کرکے جامعہ کا بھلا کرنا چاہتی ہیں ،جیسے ابھی میڈیکل کالج کی صورت میں ہوا ۔
جامعہ کے ایک سابق طالب علم اور نوجوان شاعر اکمل بلرامپوری نے اردو کے ساتھ وائس چانسلر کے سلوک پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جامعہ کی روایت سے بغاوت کی ہے ۔ انہوں نے پورے خطاب میں اردو کو نظرانداز کیا ہے جو خود جامعہ والوں کیلئے باعث شرم ہے۔ جامعہ اپنی روایت کیلئے پوری دنیا میں مشہور ہے اور آج محترمہ نے اسی روایت سے بغاوت کردی ہے۔یہ کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں ہے۔
بھارت ایکسپریس۔
روپ وے پراجیکٹ پر وشنو دیوی سنگھرش سمیتی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تشکیل…
اپیندر رائے نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’’چیف…
ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…
وزیر اعظم نریندر مودی کا کویت کا دو روزہ دورہ ختم ہو گیا ہے اور…
مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور
بہار میں گرینڈ الائنس حکومت کے قیام کے بعد خواتین کو 2500 روپے ماہانہ دینے…