بھارت ایکسپریس / 9 نومبر :عالمی یوم اردو ہندوستان میں ہر سال 9 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس لیے بھی قابل ذکر ہے کہ یہ اردو کے مشہور شاعر محمد اقبال کا یوم پیدائش بھی ہے۔ اس دن بہت سے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں سیمینار، سمپوزیم، مشاعرے وغیرہ ہوتے ہیں،
آپ کو اردو پسند ہو یا نہ ہو، شاعری پسند ہو یا نہ ہو، چاہے آپ نے کوئی شاعری نہ پڑھی ہو۔ لیکن ایک ترانہ یقینی طور پر ہر ہندوستانی اسکول میں گایا جاتا ہے ۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا،
ہم بلبلے ہیں اس کے ،یہ گلستاں ہمارا۔
یہ ترانہ پورے ہندوستان کا قومی ترانہ ہے۔ یہ ترانہ لکھنے والے سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا آج یوم پیدائش ہے۔ ان کا نام محمد اقبال ہے القاب ملنے کی وجہ سے انہیں علامہ اقبال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد کشمیری برہمن تھے، جو تین صدیاں قبل اسلام قبول کر کے کشمیر سے پنجاب میں آباد ہوئے تھے۔
اگرچہ غزل کے معنی محبوب سے گپ شپ کرنا ہے لیکن اقبال نے اپنی شاعری میں صرف محبوب سے بات نہیں کی۔ انہوں نے شاعری میں عاشقی نہیں کی ۔ بلکہ انگریزوں کے دور حکومت میں ہندوستان کے دکھوں کی آواز ان کی شاعری میں نظر آئی، قوم کا درد ان کی شاعری میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
تیری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا
میری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا
اقبال کا رام چندر جی پر لکھا ہوا شعر ان کی کھلی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ مسلم بنیاد پرستوں کی پرواہ کیے بغیر انہوں نے رام پر شعر کہے۔ انہوں نے لکھا.
ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اسکو امام ہند
رام کو امام کہنے پر ان پر بہت تنقید کی گئی، لیکن وہ شاید ناقدین سے بہت آگے سوچتے تھے۔ درحقیقت ا؎ نہوں نے اس طرح مذہب کو قبول کرنا درست نہیں سمجھا۔ انہوں نے مذہب کی تعریف شعر میں کی۔ انہوں نے فارسی میں شعر لکھا۔
تحفۃ دین امیاں؟ گفتم شنید
گفت دین عارفہ؟گفتم کی دید
(عام لوگوں کا مذہب سنی سنائی باتوں پر یقین کرنا ہے جبکہ عقلمندوں کا مذہب آنکھوں سے دیکھ کر یقین کرنا ہے)
اقبال کے بارے میں اگر ان کے مداحوں کے لیے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز جو ہے تو وہ ان کا ایک مسلمان شاعر بننا ہے۔ رام کو امام کہنے والا شاعر، ہند کے لیے مرنے والا شاعر، مذہبی جنونیوں کا نشانہ بننے والا شاعر صرف مسلمانوں کی بات کرنے لگتا ہے تو اس کا رویہ حیران کرتا ہے۔
‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستان’ لکھنے والا اس دھن کو ‘مسلم ہے ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا’ میں بدل دیتا ہے۔ وہ سرزمین ہند کو ناپاک دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ شعر لکھتے ہیں
کردے فقط اشارہ اگر شاہ خراسان
سجدہ نہ کروں ہند کی ناپاک زمین پر
اقبال پاکستان کا مطالبہ کرنے والے اولین میں شمار ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے بیٹے جاوید اقبال اور علامہ اقبال پر تحقیق کرنے والے اکثر لوگ جو لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے، اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اقبال پاکستان کے لیے نہیں بلکہ اقلیتوں کے لیے کچھ خاص سہولتیں اور اختیار چاہتے تھے۔
اقبال کی شاعری میں رام کی جگہ محمود غزنوی کے آنے کے بعد جن اہل علم نے ان کا دفاع کیا، ان کا خیال ہے کہ اس کے لیے اس وقت کے حالات بھی ذمہ دار تھے۔ جس میں کانگریس کی مداخلت اور کئی بنیاد پرست ہندو تنظیموں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے بعد مسلمانوں کی تنہائی تھی۔
اقبال نے 1938 میں اس دارفانی کو الوداع کہا۔ لیکن ان کی شاعری آج بھی اتنی ہی زندہ دکھائی دیتی ہے جیسے انگریزوں کے دور میں تھی۔ ان کا ایک شعر آج کے حالات میں بہت یاد آرہا ہے۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا
ریسرچرز کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک میں بچے اور نوجوان…
کاشی میں شیو سوروپ کاشیراج ڈاکٹر وبھوتی نارائن سنگھ کے 98 ویں یوم پیدائش کے…
بابا صدیقی کی افطار پارٹیوں کو ہندوستان کی تفریحی راجدھانی میں ہائی پروفائل پروگراموں میں…
چھٹی گارنٹی کے تحت تمام بلاکس میں ڈگری کالجز اور تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں…
نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی عدالت نے منگل کو بی جے پی…
یہ حادثہ احمد آباد-ممبئی بلٹ ٹرین پروجیکٹ کے دوران پیش آیا۔ زیر تعمیر پل گر…