پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک عدالت کے اندر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ڈرامائی گرفتاری نے ملک میں سیاسی کشیدگی کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ اس گرفتاری کے بعد ہونے والے واقعات کا پاکستان میں تصور کرنا کسی حد تک مشکل تھا۔ عمران خان کی گرفتاری نے ملک کے سب سے طاقتور ادارے، فوج کے خلاف غیر معمولی دباؤ کو جنم دیا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں نے ملک بھر میں مظاہرے کئے۔ لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہوں پر توڑ پھوڑ، راولپنڈی میں آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) پر حملہ اور دیگر کئی مقامات پر فوجی تنصیبات کو نذر آتش کیا۔ اس قسم کی فوج مخالف پوزیشن پاکستان میں بے مثال اور کبھی نہیں سنی گئی۔ یہ وہی لوگ ہیں، جو ماضی میں کرپٹ سیاست دانوں سے بیمار ہو کر فوج کے مارشل لاء کو خوش آمدید کہتے تھے۔ لیکن وقت بدل چکا ہے اب فوج عوام میں اپنی کم ترین مقبولیت دیکھ رہی ہے۔ سابق وزیراعظم کی گرفتاری کو شہباز شریف کی سویلین حکومت کی نہیں بلکہ پاک فوج کی کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس نے عوام میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف غصہ پیدا کر دیا ہے۔ اس وقت پاکستانی معاشرے میں فوج مخالف جذبات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی فوج کے خلاف متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے ایک کامیاب بیانیہ باندھنے کا کریڈٹ خان کو جاتا ہے اور یہ کہ وہ کس طرح ایک کرپٹ حکومت کو اقتدار میں رکھتی ہے۔ اس کے خلاف اس حملے کو بے اثر کرنے کی فوج کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ خان اپنے اوپر ہونے والے ناکام قاتلانہ حملے کا الزام انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے میجر جنرل فیصل نصیر پر ڈالنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔
عوامی سطح پر ایک سینئر سروس افسر کے نام کی کھلے عام تشہیر نے فوج کی قیادت کو مشتعل کیا اور اس پر فوج کے میڈیا ونگ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ عمران خان کی گرفتاری کو اس الزام کے حوالے سے بھی دیکھا جا رہا ہے کیونکہ بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خان نے فوج کی ’’سرخ لکیر‘‘ عبور کر لی ہے۔ یہ فوج کے لیے تشویشناک صورتحال ہے۔ کیونکہ پاکستان فوج کے سائے میں چلنے والی ایک ریاست ہے اور فوج نے اپنے وجود کے بیشتر عرصے میں عوامی حکومت پر بھی تسلط والا کردار ادا کیا ہے۔ یہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے آج تک کسی وزیر اعظم نے پانچ سالہ پارلیمانی مدت پوری نہیں کی اور کئی مواقع پر جرنیلوں نے براہ راست ملک پر حکومت کی۔ عمران خان کی اب تک کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی یہ ہے کہ وہ فوج کی اعلیٰ قیادت کو عوام میں اقتدار کے بھوکے جرنیلوں کے طور پر دکھانے کے قابل رہےہیں۔ پاکستان کی خفیہ ریاستی طاقت نے ہمیشہ اس بیانیے کو آگے بڑھایا ہے کہ زیادہ تر سیاسی رہنما بدعنوان ہیں اور ملک کو درپیش تمام مشکلات کے ذمہ دار ہیں۔ اور فوج ہی واحد ادارہ ہے جو امن قائم کر سکتا ہے اور استحکام اور سلامتی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طویل فوجی حکمرانی نے پاکستان کی سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی پر ناقابل تلافی اثرات چھوڑے ہیں۔ پاکستان میں طویل فوجی قوانین کا سب سے زیادہ دیرپا اثر اس کےکم ہوتے ہوئے ریاستی آئین کے اقدار کی ہے۔ اتنےزیادہ موجودہ چارج اپ ماحول کے ساتھااور شدید اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کے ساتھ، ایسا لگتا ہے کہ عام پاکستانی اپنے ملک کی فوج پر سے اعتماد کھو رہے ہیں اور اسے صرف ایک اور سیاسی تنظیم سمجھ رہے ہیں۔
ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی اور بڑھتے ہوئے پولرائزیشن کے باوجود طاقت کا توازن اب بھی فوج کے پاس ہے لیکن وہ شدید دباؤ میں آ رہی ہے۔ ماضی میں، فوج نے جمہوریت کے ساتھ جو بھی تجربہ کیا تھا، جیسے کہ براہ راست مارشل لاء، فیلڈ مارشل ایوب خان کا گائیڈڈ ڈیموکریسی کاتصور، اور جنرل باجوہ کی ہائبرڈ طرز حکومت۔ لیکن اب عام لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے مختلف وجوہات مثلاً سیاسی اشرافیہ سے ناراضگی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، غلط حکمرانی اور موجودہ سیاسی عدم استحکام۔ اور لوگ کسی بھی قسم کے سیاسی انتظامات کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں جو لوگوں کی مرضی کو مدنظر نہیں رکھتا۔ مالیاتی دارالحکومت کراچی اور سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں خان کی پارٹی پی ٹی آئی کی فتوحات کو قومی مزاج کے لیے لٹمس ٹیسٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے عمران خان کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو عام انتخابات پر اصرار کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ بڑی کامیابی حاصل کریں گے۔
اس کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان پر اب تک جتنے بھی دباؤ کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ہیں وہ انہیں روکنے کے بجائے مزید مقبول بنا رہے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ عمران خان کا بڑی حمایت پنجاب سے ملتی ہے جو کہ پاکستان آرمی کا مرکز بھی ہے۔ فوج کے لیے دوسرے نسلی گروہوں جیسے بلوچ، بنگالیوں، سندھیوں اور پشتونوں کا قتل عام کرنا ایک بات ہے لیکن پنجاب میں ایسا کرنا بالکل دوسری بات ہے۔ اس سے فوج کے لیے پی ٹی آئی کے سربراہ اور ان کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن پہلے ہی بہتے ہوئے خون کے باوجود فوج اگر اب خان کو عدالتی عمل کے ذریعے جیل کی سزا سنا کر کچھ لمبے وقت کے لیے جیل میں نہیں رکھ سکتی تو اس کا چہرہ ختم ہو جائے گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عمران خان کے خلاف کوئی بھی سخت کارروائی ان کی حمایت میں اضافہ کرے گی اور فوج کی بری شبیہ پیش کرےگی۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کی مشکلات اور غیر یقینی کی صورتِحال میں مزید اضافہ ہوتا ہے کیونکہ وہ میانمار کی فوجی جُنٹا جیسا انجام نہیں جھیلنا چاہتے جہاں جُنٹا اپنی حکمرانی کے خلاف خانہ جنگی دیکھ رہی ہے۔ لیکن اگر پاک فوج اور عمران خان کے درمیان کوئی مفاہمت نہ ہوئی تو یہ تصادم مزید شدت اختیار کرے گا اور بڑے سول بدامنی میں بدل سکتا ہے۔
۔۔۔بھارت ایکسپریس
اگر ہم بادام کھانے کے طریقوں کی بات کریں تو اسے حلوہ، لڈو جیسے کئی…
ایس ایم خان اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور دیانتداری کے لیے جانے جاتے تھے۔ پریس…
روہنٹن ایک پرجوش استاد تھے جو اپنے علم کو دوسروں کے ساتھ بانٹنا پسند کرتے…
آچاریہ پرمود کرشنم نے مہرشی دیانند کی غیر معمولی شخصیت اور متاثر کن اصلاحات کی…
عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی کے لیے تیاری شروع کر دی ہے۔ پارٹی نے…
’پشپا 2: دی رول‘ کو سوکمار نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ یہ فلم میتھری مووی میکرز…