نیتن یاہو کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے بائیڈن نے اپنے طویل کیریئر کے دوران اسرائیل کے لیے اپنی حمایت کو کبھی نہیں چھپایا یہاں تک کہ انہوں نے ایک بار لکھا کہ “نیتن یاھو میں تم سے پیار کرتا ہوں”۔ تاہم لگتا ہے محبت کا صفحہ سات ماہ کی جنگ کے بعد بند ہو گیا ہے۔
رفح پراسرائیلی حملے سے دونوں اتحادی ممالک کے رہ نماؤں کے درمیان گہری دراڑ پیدا ہو گئی۔ امریکی صدر نے اس ہفتے پہلی بار یہ اشارہ دیا کہ ان کا ملک اسرائیل کی کچھ فوجی امداد معطل کر دے گا جو کہ سالانہ تین بلین ڈالر بنتی ہے۔ انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ جنوبی غزہ کے شہر رفح پر حملے سےباز رہے۔
دونوں ممالک کے درمیان شرمناک صورتحال
بائیڈن اسرائیل کی دفاعی امداد روک کر شرمناک صورت حال میں گھر چکے ہیں۔ کیونکہ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کی لامحدود حمایت کے پس منظر کے خلاف انہیں اپنے ملک میں تنقید کا سامنا ہے۔ رواں سال ہونے والے انتخابات صدر بائیڈن کے لیے ایک نئی آزمائش ہیں کیونکہ اسرائیل کو ناراض کرکے انہوں نے یہودی ووٹروں کی مخالفت مول لی ہے اور انہیں اس کی قیمت انتخابات میں چکانی پڑ سکتی ہے۔
محبت کے رنگ دونوں طرف پھیکے پڑتے دیکھائی دیتے ہیں۔ رفح کے معاملے پر نیتن یاھو نے اپنے دیرینہ اتحادی امریکہ کی بات نہیں مانیں بلکہ ڈیڑھ ملین لوگوں پرمشتمل رفح پر فوج کشی شروع کردی ہے۔ امریکی حکومت کے عہدیدار کئی ہفتوں سے نیتن یاھو سے مطالبہ کرتے آئے تھے کہ وہ رفح پر حملے سے باز رہیں۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ان کی حالیہ بات چیت میں بشمول سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کا گذشتہ ہفتے تل ابیب کا دورہ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل نےامریکی انتباہات کو سنجیدگی سے نہیں
لیا۔
کیا ہے مکمل تنازعہ
اس تناظرمیں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں لیڈران کے درمیان ذاتی تعلقات کی تاریخ ضروری نہیں کہ ان کے سیاسی مفادات کی عکاسی کرے۔ سینٹرفارامریکن پروگریس میں قومی سلامتی اوربین الاقوامی پالیسی کے ڈائریکٹرایلیسن میک مینس نے وضاحت کی کہ ان کے مفادات اس وقت “مکمل تنازعہ” میں ہیں۔ خبر رساں ادارے “اے ایف پی” کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ”یہ ضروری نہیں کہ ذاتی دوستی ہو جو کسی نہ کسی طرح دونوں رہ نماؤں کے مضبوط سیاسی مفادات کو زیر کر لے”۔
بشکریہ العربیہ اردو