سیاست

MP Assembly Election and BJP: اسمبلی انتخاب سے قبل مدھیہ پردیش میں بی جے پی انتشار کی شکار،ایک ایک کرکے درجن بھر لیڈران نے تھام لیا کانگریس کا ہاتھ

مدھیہ پردیش میں چند ماہ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس الیکشن میں اپنی جیت درج کرنے کے لیے جہاں ایک طرف شیوراج حکومت لگاتار اسکیموں کااعلان کررہی ہے وہیں دوسری طرف بی جے پی کو آئے روز جھٹکے لگ رہے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں بی جے پی کے کئی لیڈر یا تو شیوراج حکومت چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہو گئے ہیں یا پارٹی چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ حال ہی میں پارٹی کے9 اہم لیڈروں نے شیوراج حکومت چھوڑ دی ہے اور اب وہ سب اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کررہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کانگریس کے صدر کمل ناتھ نے بھی گزشتہ ہفتہ  ان میں سے کچھ لیڈران کو پارٹی کی رکنیت دلائی تھی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست میں ایک کے بعد ایک لیڈر کانگریس میں کیوں شامل ہو رہے ہیں؟

پہلے جانیں کہ وہ 9 لیڈر کون ہیں؟

ان نو لیڈروں میں بھوپال کے سابق ایم ایل اے اوماشنکر گپتا کے بھتیجے ڈاکٹر آشیش اگروال گولو، سابق ایم ایل اے بھنور سنگھ شیخاوت، چندر بھوشن سنگھ بنڈیلا عرف گڈو راجہ، ویریندر رگھوونشی، سوجان سنگھ بنڈیلا کے بیٹے، جھانسی سے دو بار ایم پی رہ چکے چھدی لال پانڈے شامل ،شیوم پانڈے، اروند دھکڑ شیو پوری، انشو رگھوونشی، ڈاکٹر کیشو یادو بھنڈ اور مہندر پرتاپ سنگھ شامل ہیں ۔

بی جے پی کیوں انتشار کی شکار ہے؟

بدعنوانی کا الزام: مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں بدعنوانی ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھری ہے۔ کانگریس پارٹی مسلسل شیوراج حکومت پر بدعنوانی کا الزام لگا رہی ہے۔ کانگریس کے ریاستی صدر کمل ناتھ نے دارالحکومت دہلی میں تعمیر ہونے والے مدھیہ پردیش بھون میں بھی بدعنوانی کا الزام لگایا اور کہا کہ شیوراج سنگھ چوہان کا ایک ہی منتر ہے: پیسہ دو اور کام لو۔کانگریس کے ریاستی صدر کمل ناتھ نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر ٹوئٹ کیا تھا کہ ‘شیوراج سنگھ چوہان بدعنوانی پر کارروائی نہیں کرتے، بلکہ ہر ایکشن میں بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ مدھیہ پردیش کا 50 فیصد کمیشن راج ہر روز نئے منظر پیش کر رہا ہے۔ دہلی میں بنایا گیا نیا مدھیہ پردیش بھون اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

اس کے علاوہ بی جے پی سے کانگریس میں شامل ہونے والے لیڈروں میں سے ایک ویریندر رگھوونشی نے کانگریس میں شامل ہوتے ہی شیوراج حکومت پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مدھیہ پردیش کو بدعنوانی کی بات کرنے والی حکومت کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مدھیہ پردیش کے ساڑھے آٹھ کروڑ لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ 1000-1000 روپے کے سرکاری لالی پاپ میں نہ الجھیں۔ ہمیں بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزگار چاہیے، گندم اور چاول کی اچھی قیمت چاہیے۔

طاقت نہ دینے کا الزام: کولارس کے ایم ایل اے ویریندر رگھوونشی نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا، ‘میں پچھلے تین سالوں سے کولارس کا ایم ایل اے ہوں اور جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے سندھیا جی کی حمایت سے حکومت بنائی ہے، تب سے مجھے عوامی خدمت کرنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں ترقی کے ایشوز اٹھاتا تھا۔ لیکن اس پر عمل کرنے کے لیے پارٹی کے انچارج نے بھی مجھے شیوراج جی سے ملنے نہیں دیا۔ ویریندر رگھوونشی نے الزام لگایا کہ اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی ایک مخصوص خاندان کے تسلط میں آ گئی ہے۔ اس مخصوص خاندان سے وہ جیوترادتیہ سندھیا خاندان کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔

بی جے پی میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کا چیلنج

مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان اس سال ریاست میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی تیاری کے لیے پوری ریاست کا “طوفانی دورہ” کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں انہوں نے تقریباً ہر ضلع میں ایک یا دوسرا بڑا پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ لیکن گھر کے اندر جاری بے اطمینانی فی الحال ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ مئی کے مہینے میں مدھیہ پردیش کا دورہ کرنے والے مرکزی وزیر مملکت اسٹیل فگن سنگھ نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہاتھا کہ بی جے پی کی تنظیم بہت بڑی ہے اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ اس میں ہر کسی کو جگہ دینا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا، “مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں سیاست کا کردار اتر پردیش اور بہار کی طرح نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش میں تنظیم چھوڑنے والا لیڈر کچھ نہیں کر سکا۔ معاملے کے گواہ ہیں۔

صحافی کیا کہتے ہیں

وہیں بی بی سی کی ایک رپورٹ میں سینئر صحافی سنجے سکسینہ کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس پر یقین کرے یا نہ کرے لیکن مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں نہ صرف پارٹی کو حکومت مخالف لہر کا سامنا ہے بلکہ اس کے اندر بغاوت کی لہر بھی چل رہی ہے،جس کا پارٹی کو سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مسلسل اقتدار میں رہنے کی وجہ سے نہ صرف تنظیم کمزور ہوئی ہے بلکہ اس کا اقتدار پر انحصار بھی بڑھ گیا ہے۔ ریاست میں کشابھاو ٹھاکرے، کیلاش جوشی، نارائن پرساد گپتا، پیاری لال کھنڈیلوال اور سندر لال پٹوا نے جو پارٹی بنائی تھی، اسے شیوراج سنگھ چوہان کے دور اقتدار میں اقتدار کے حکم پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ سنجے سکسینہ کے مطابق مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی طاقت اور اس کی تنظیم میں تال میل کا فقدان صاف نظر آرہا ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اس وقت بی جے پی کی سب سے بڑی ذمہ داری تنظیم کے ناراض لیڈروں سے نمٹنا ہے جسے پورا کیے بغیر انہیں انتخابات میں بہتر نتائج کی کوئی ضمانت نہیں مل سکتی۔

بی جے پی کا ایک اور ایم ایل اے بغاوت کی راہ پر!

مدھیہ پردیش کے میہار سے بی جے پی ایم ایل اے نارائن ترپاٹھی مسلسل اپنا رویہ سخت کر رہے ہیں۔ انہوں نے ریاست کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان کو کم بارش کی وجہ سے فصلوں کی خرابی کے بارے میں ایک خط لکھا ہے، جس میں کسانوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ 15 ستمبر کو محکمہ بجلی کے خلاف بڑا مظاہرہ کرنے کی بھی اپیل کی گئی ہے۔اپنی حکومت میں ہی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنا یہ اشارہ کررہا ہے کہ نارائن ترپاٹھی اپنا تیور بدل رہے ہیں اور یہ تیور بغاوت کی علامت بھی ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts