بحران کی گھڑی میں پاکستان کی مدد کے لئے چین آگے نہیں آیا۔ اب پاکستان نے بھی سی پیک کے تحت اپنے ملک میں جاری منصوبوں کے لئے چینی شہریوں کی سیکورٹی سے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں۔ اس نے کہا ہے کہ چینی شہری خود اپنی سیکورٹی کے لئے نجی ایجنسیوں کی خدمات حاصل کریں۔ ایسے میں یہ صحیح موقع ہو سکتا ہے جب بھارت سری لنکا کی طرز پر پاکستان کی مدد کے لئے آگے آئے۔ مگر، اس سے پہلے انڈس واٹرٹریٹی 1960 جیسے موضوعات پربات چیت کا موقع بھی تلاش کرنا ضروری ہے اوربھارت نے اس حوالے سے پاکستان کو نوٹس دے دیا ہے۔
بھارت کو مسلسل نظریں جمائے ہوئے پاکستان کی زبان بھی بدل گئی ہے۔ بھارت کی تعریف اور گزشتہ دور میں جنگوں کے باوجود کچھ حاصل نہ کرپانے کا احساس جرم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ غالباً اس امید میں کیا جا رہا ہے کہ بھارت بھی بحران کی گھڑی میں اس کی مدد کرے۔ ظاہر ہے کہ بھارت سے وہ مدد کی توقع کر رہے ہیں۔
سال 22-2021 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 513 ملین ڈالر کی تجارت ہوئی۔ پاکستان نے کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت سے تمام درآمدات بند کردیئے تھے۔ سال 2019 میں پلوامہ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان نے پاکستان سے موسٹ فیورڈ نیشن (پسندیدہ ترین ملک) کا درجہ چھین لیا تھا، لیکن 2020 میں، کووڈ کے دورمیں، ہندوستان نے پاکستان کو ضروری دواوں کا ایکسپورٹ کیا تھا۔ آج بھی پاکستان، بھارت کی چینی اوردواوں پرمنحصر ہے۔ ظاہر ہے اگر پاکستان اپنی بھارت مخالف حرکتوں کو بند کرتا ہے تو اسے بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو بحران کی اس گھڑی میں یہ بھی سمجھ آجانا چاہئے کہ چین کی دوستی محض ایک دھوکہ ہے، جو دراصل خود غرضی میں لپٹا ہوا زہر ہے، جس کا انجام خطرناک ہوگا، ٹھیک ویسے ہی جیسے سری لنکا میں ہوا۔ بھارت کے بجٹ میں اپنے پڑوسی ممالک کی مالی مدد کے لئے بھی رقم مختص کی جاتی ہے، لیکن پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں ہے، جو اس کے لئے بدقسمتی کی بات ہے۔ ایسے میں پاکستان اگر بھارت کی طرف ایمانداری سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو حال کے ساتھ ساتھ اس کا مستقبل بھی سنورسکتا ہے۔
-بھارت ایکسپریس