قومی

Waqf Bill 2024: وقف میں ترمیم سے مسلمانوں کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ حکومت کے دعووں سے لے کر تحفظات تک سب کچھ جانئے

آج ہندوستان کی پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کے لیے جو بحث جاری ہے اس کا آغاز 8 اگست 2024 میں ہی ہوگیا تھا۔ نریندر مودی نے بطور وزیراعظم تیسری بار حلف لیا اور بجٹ اجلاس میں حکومت دو بل لے کر آئی۔ پہلا– وقف (ترمیمی) بل، 2024۔ دوسرا– مسلمان وقف (منسوخی) بل 2024۔ حکومت نے کہا کہ اس کے ذریعہ وقف املاک کا بہتر انتظام کیا جاسکے گا نیز وقف بورڈ کے کام کاج کو مزید موثر بنایا جاسکے گا۔

اس سے پہلے کہ ہم ان سوالات کی طرف آئیں، نئے وقف قانون سے متعلق حکومت کے کیا دعوے ہیں، اور اپوزیشن یا مسلم کمیونٹی کے ایک بڑے طبقے کے خدشات کیا ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ وقف کیا ہے، کہاں سے آیا اور اس کی کل ملکیت کیا ہے۔

وقف کیا ہے؟

وقف ایک ایسی جائیداد ہے جو مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے مخصوص ہے۔ اسلامی قوانین کے تحت، اس پراپرٹی کو خیراتی یا مذہبی مقاصد کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے استعمال کرنا منع ہے۔ جائیداد کو وقف کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب یہ کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں ہے۔ اب اللہ کے نام پر ہے۔ ایک بار جب کسی جائیداد کو وقف قرار دے دیا جائے تو دوبارہ ملکیت کے حقوق حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

ہندوستان میں وقف کی تاریخ

ہندوستان میں وقف کی تاریخ دہلی سلطنت کے دور سے ملتی ہے۔ اس وقت کے سلطان محمد غوری نے دو گاؤں کا نام جامع مسجد ملتان کے نام پر رکھا تھا۔ نیز اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عالم اسلام کے معروف عالم دین شیخ الاسلام کو سونپی گئی۔ دہلی سلطنت اور اس کے بعد ہندوستان میں اسلامی خاندانوں کی توسیع کے ساتھ وقف املاک میں اضافہ ہوتا رہا۔

وقف کے نام پر کتنی جائیداد ہے؟

ہندوستانی ریلوے اور ہندوستانی فوج کے بعد، وقف بورڈ ملک میں تیسری سب سے بڑی جائیداد کا مالک ہے۔ اس وقت ملک بھر میں تقریباً 8 لاکھ 70 ہزار جائیدادوں پر وقف بورڈ کا کنٹرول ہے۔ یہ جائیدادیں تقریباً 9 لاکھ 40 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی تخمینہ لاگت 1 لاکھ 20 ہزار کروڑ روپے ہے۔ دنیا میں وقف املاک کی سب سے زیادہ تعداد ہندوستان میں ہے۔

وقف پرحکومت کے دعوے اور خدشات

پہلا – وقف ترمیمی بل 2024، حکومت 1995 کے وقف ایکٹ میں کچھ بڑی تبدیلیاں کرکے آج لوک سبھا میں منظور کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سے ہندوستان میں وقف املاک کے انتظام اور انتظامیہ کے موجودہ ڈھانچے میں تبدیلی آئے گی۔ جہاں حکومت اسے ایک اصلاح قرار دے رہی ہے وہیں اپوزیشن اور کئی مسلم تنظیمیں اسے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دے رہی ہیں۔

دوسرا – نئی ترمیم کے بعد وقف کی تعریف اور رجسٹریشن کا طریقہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔ نیز وقف کے ریکارڈ کے انتظام میں ٹیکنالوجی کے کردار کو بڑھانے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سے وقف بورڈ کے کام کاج میں یکسانیت، شفافیت اور جوابدہی طے کی جائے گی۔

تیسرا – وہیں مسلمان اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ مسلمان وقف (منسوخی) بل 2024 کا اصل مقصد 1923 کے مسلم وقف ایکٹ کو منسوخ کرنا ہے جبکہ حکومت نے اسے نوآبادیاتی دور کا بل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہ صرف پرانا ہے بلکہ جدید ہندوستان میں وقف املاک کا انتظام کرنے کے لیے بھی ناکافی ہے۔

تاہم اب مودی حکومت کے پاس پہلے کی طرح پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ہے۔ اس لیے انہیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد اس پر آگے بڑھنا پڑ رہا ہے۔ حکومت نے اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کے کچھ اعتراضات کے بعد اسے جے پی سی (پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی) کو بھیج دیا تھا جہاں کچھ تبدیلیوں کے بعد اب یہ بل نئے سرے سے پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے۔

آئیے وقف سے متعلق خدشات کو سمجھتے ہیں

اپوزیشن کے دلائل

پہلا- اپوزیشن جماعتیں اور مسلمانوں سے وابستہ تنظیمیں نئے قانون کو غیر آئینی اور سیاسی مقاصد کے ساتھ لائے جانے کے خدشات کا اظہار کررہی ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت دیگر مسلم تنظیموں کو وقف بورڈ میں دو غیر مسلموں کی موجودگی کو یقینی بنائے جانے پر مکمل اعتراض ہے۔ اس بل میںمسلم ممبران میں دو خواتین ممبران کا بھی ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

دوسرا – اسدالدین اویسی نے کہا تھا کہ وقف جائیداد نجی ہے، جب کہ اس قانون کے بعد حکومت اسے سرکاری ملکیت سمجھ سکتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ڈیڈ (دستاویز) کے بغیر وقف املاک کا اندراج نہیں ہو سکتا اور اگر رجسٹریشن نہیں ہے تو حکومت ان جائیدادوں کو چھین بھی سکتی ہے۔

تیسرا – ایم پی عمران مسعود کا کہنا ہے کہ شق  2A اور 3 (vii) E  خطرناک ہیں کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ جو جائیداد متنازعہ نہیں ہے اور وہ سرکاری جائیداد نہیں ہے وہ وقف کی رہے گی۔ لیکن اتر پردیش حکومت نے 14,500 ہیکٹر اراضی میں سے 11,500 ہیکٹر زمین کو، جو وقف کے نام پر رجسٹرڈ تھی، کو سرکاری جائیداد قرار دیا ہے۔ نئے قانون کے مطابق اب اسے سرکاری جائیداد کے طور پر رجسٹر کیا جائے گا۔ عمران مسعود نے اس پر اعتراض کا اظہار کیا ہے۔

چوتھا – ڈسٹرکٹ مجسریٹ (DM) کے اختیارات پر بھی تنازعہ ہے۔ نئی ترمیم کے بعد ایسی جائیداد یا زمین کے بارے میں فیصلہ جس پر حکومت اور وقف بورڈ دونوں کا دعویٰ ہے، ڈی ایم کی صوابدید پر منحصر ہوگا۔ اگر ڈی ایم اس جائیداد کو سرکاری جائیداد کے طور پر قبول کرتا ہے تو یہ ہمیشہ کے لیے سرکاری ملکیت بن جائے گی۔ اس کے علاوہ وقف بورڈ کا سروے کا حق بھی اب ختم ہو جائے گا۔ بورڈ سروے کر کے نئی جائیدادوں کا دعویٰ نہیں کر سکے گا۔

یہ بھی پڑھیں: Waqf Amendment Bill: وقف ترمیمی بل سے متعلق پارلیمنٹ میں بحث جاری، جانیے وقف املاک کے حوالے سے بنیادی باتیں

وہ شقیں جن پر تنازعہ کم ہے

پہلا- کچھ لوگوں کو شیعہ اور سنی برادریوں کے علاوہ بوہرہ اور آغاخانی برادریوں کے لیے الگ بورڈ بنانے پر اعتراض ہے۔

دوسرا- تنازعہ کی صورت میں، وقف بورڈ ٹریبونل کا فیصلہ اب تک حتمی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب اس کے حکم کے خلاف 90 دنوں کے اندر ہائی کورٹ میں بھی اپیل کی جا سکتی ہے۔ ہائی کورٹ اس پر اپنا فیصلہ دے سکتی ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Habiburrahman

Recent Posts

Waqf Amendment Bill gets President nod after passed in Parliament: وقف ترمیمی بل کو صدر جمہوریہ کی منظوری، نیا قانون نافذ ہوگیا

وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے بعد اب قانون بھی…

9 hours ago

IPL 2025 Punjab Vs Rajasthan: راجستھان نے پنجاب کو جیت کی پٹری سے اتارا، گھر میں گھس کر 50 سے ہرایا

نئے کپتان شریئس ایئر اور نئے کوچ رکی پونٹنگ کی قیادت میں پنجاب کنگز نے…

10 hours ago