از: ڈاکٹر اننیہ اوستھی
اس ماہ ستمبر میں بھارت نے ساتواں راشٹریہ پوشن ماہ 2024 منایا ہے۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو تغذیہ سے متعلق بیداری اور عملی کارروائی کے لیے وقف ہے۔ یہ ایک ایسا اہم پہلو ہے جو ہماری اجتماعی توجہ کا متقاضی ہے اور وہ توجہ معاون غذائی فراہمی کی شکل میں کی جانی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کو پستان کے ذریعہ مخصوص غذا کی فراہمی کے علاوہ ایک ایسی غذا فراہم کرنے کا طریقہ کار جس میں ٹھوس اور نیم ٹھوس خوراک کے عناصر شامل ہوں، بھارت میں مسلسل موجود سوئے تغذیہ کے مسئلے کو حل کرنے کے معاملے میں بنیادی اہمیت کی حیثیت کا حامل ہے۔ معاون طور پر غذا کی فراہمی محض خوراک تک محدود نہیں ہے۔ اس کے تحت اس امر کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ بچوں کو صحیح وقت پر صحیح تغذیہ پر مبنی عناصر فراہم کرائے جائیں جو صحت مند اور بارآور زندگی کی بنیادیں استوار کر سکیں ۔ چونکہ واحد طور پر دودھ نمو پذیر بچے کی تمام تغذیہ جاتی خوراک کی تکمیل مکمل طو رپر نہیں کر سکتا۔ عالمی ادارہ صحت نے چھ ماہ کی عمر کے بچوں کے لیے تغذیہ کے لحاظ سے وافر معاون خوراکوں کی سفارش کی ہے جس کے ساتھ دو برس کی عمر یا اس سے بھی زیادہ تک انہیں پستانوں سے دوھ بھی پلایا جانا ضروری ہے۔
معاون طور پر غذا کی فراہمی ذہنی نشو و نما اور اس کے اعمال میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جسمانی نمو اور امراض سے محفوظ رکھنے کی قوت کو بڑھاتی ہے۔ ذہن کی نشو و نما کے سلسلے میں سائنٹفک مشاہدات سے انکشاف ہوا ہے کہ بچے کی پیدائش کے دو برسوں کے اندر اس کا ذہن 100 فیصد سے زائد نمو سے ہمکنار ہوتا ہے اور نمو میں بنیادی طو رپر اس کے ذہن اور اس کی ریڑھ کی ہڈی کے اندر موجود خلیے نشو و نما کے حامل ہوتے ہیں۔
اسی طریقے سے پہلے سال کے دوران ایک بچے کی پیدائش کے وقت جو وزن ہوتا ہے وہ وزن سال کے اندر تقریباً تین گنا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا معاون طور پر غذا کی فراہمی نہ صرف یہ کہ ذہنی نشو و نما کے لیے لازمی ہے بلکہ بچے کے سوئے تغذیہ کو کم کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہ ایسی صورت ہے جو بھارت میں پانچ برس سے کم کی عمر کے تقریباً ایک تہائی بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ بچوں میں ناقص تغذیہ کی متعدد صورتیں ہیں جو ان کی نشو و نما کے ساکت ہو جانے (عمر کے لحاظ سے لمبائی نہ بڑھنا)، ویسٹنگ (لمبائی کے لحاظ سے کم وزن) اور ناکافی وزن (عمر کے لحاظ سے کم وزن) پر مشتمل ہیں۔ یہ تمام تر صورتیں نمو پذیر بچے کی جسمانی اور ذہنی ترقی اور نشو و نما پر اہم اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کی نشو و نما ساکت ہو جانے والے بچے امتحانات وغیرہ میں کم نمبر لاتے ہیں، ان کے مجموعی نتائج بھی حوصلہ افزا نہیں ہوتے اور بعد کی زندگی میں ان کی اقتصادی پیداواریت بھی کم نظر آتی ہے۔
اس کے علاوہ معاون طور پر غذا کی فراہمی ایک مضبوط امراض سے نبرد آزما ہونے کے نظام کی تعمیر کے لیے بھی لازم ہے۔ اس سے اسہال، سانس کی بیماریاں اور خوراک سے ہونے والی ایلرجی وغیرہ لاحق ہونے اور چھوت لاحق ہونے کے معاملات میں تخفیف لانے میں مدد ملتی ہے جو بچوں میں عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک بچے کی زندگی کے پہلے دو برس مواقع کا وہ اہم موقع ہوتا ہے جب وافر تغذیہ اہم طو رپر اس کی جسمانی نمو، ہوش و حواس اور ہماری مستقبل کی پیڑھیوں کی امراض سے لڑنے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی اہم نازک مدت ہوتی ہے جس کے دوران ایک متوازن غذا جو وٹامن سے مالامال پھلوں اور سبزیوں، ثابت اناجوں، پھلیوں، انڈوں اور دودھ کی صنعت سے حاصل ہونے والی اشیاء کی شکل میں بچے کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اس کی اہمیت کے باوجود بھارت میں معاون غذا کی فراہمی تشویشناک طو رپر فقدان کا شکار ہے ۔ قومی کنبہ سروے کے ذریعہ حاصل شدہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کے لیے معاون غذا کے معاملے میں فاصلہ باقی ہے جس پر سوئے تغذیہ سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر مؤثر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی پس منظر میں خواتین اور اطفال ترقیات کی وزارت نے راشٹریہ پوشن ماہ (قومی تغذیہ ماہ2024) میں معاون غذا کی فراہمی کو ترجیح دی ہے جس سے بھارت کے تغذیہ ایجنڈے میں ایک اہم سنگ میل اجاگر ہوتا ہے۔
یہ ہمیں ایک اہم اور کلیدی سوال پر سوچنے کے لیے مجبور کرتا ہے: بھارت میں چھوٹے بچوں کی معاون تغذیہ فراہمی کو بڑھانے اور اختیار کرنے کے لیے کون کون سے اقدامات کیے جاتے ہیں؟
کامیاب معاون غذا کی فراہمی کے لیے پہلا اور سب سے لازمی امر یہ ہےکہ بچے کی ڈائٹ میں صحت بخش اور تغذیہ بخش خوراک شامل کی جائے خصوصاً چھ مہینے کی عمر سے لے کر دو برسوں کی عمر تک پہنچنے کے درمیان ایسا کرنا ضروری ہے۔ بھارت میں غذاؤں کا مالامال سلسلہ دستیاب ہے اور اس کے تحت مختلف النوع تغذیہ بخش متبادل دستیاب ہیں جو چھوٹے بچے کے لیے مثالی تغذیہ فراہم کرسکتے ہیں۔ کھچڑی اور دلیہ جیسے روایتی کھانے نہ صرف یہ کہ تیار کرنے میں آسان ہوتے ہیں بلکہ ان میں لازمی تغذیہ جاتی عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر راگی کیلے اور دلیہ پر مشتمل غذا آئرن اور کیلشیم کا عمدہ وسیلہ ہے۔ جبکہ باجرے کی کھچڑی ایسی چیز ہے جو وٹامنوں اور معدنیات کا عمدہ مرکب ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواتین اور اطفال کی ترقیات کی وزارت کی جانب سے مشن پوشن 2.0 کے لیے جاری کیے گئے رہنما خطوط میں غذائی تنوع کو فروغ دینے پر ازحد زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی تازے پھلوں، سبزیوں، موٹے اناجوں اور ثابت شکل میں خوراک کے استعمال کو بھی اہمیت دی گئی ہے جو مقامی طور پر دستیاب ہوتے ہیں۔ تغذیہ سے مالامال ہوتے ہیں اور علاقائی پس منظر میں بھی مناسب خیال کیے جاتے ہیں۔ ان رہنما خطوط کو بنیاد بناکر روایتی طور پر جن کھانوں کا استعمال کم ہوتا جا رہا ہے انہیں مقامی طور پر دستیاب کرایا جاتا ہے اور قابل استطاعت عناصر یا خصوصیات اس امر کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں کہ بچے کو ایسی متوازن غذا فراہم ہو جو اس کی نشو و نما میں معاون ثابت ہو۔
دوسری بات، سائنٹفک طو رپر پیغام پہنچانے کے لیے ثقافتی پلیٹ فارموں کا استعمال بڑے پیمانے پر سماجی اور برتاؤ جاتی تبدیلی کو فروغ دینے کے معاملے میں کلیدی حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے بچے کی پیدائش کے چھ مہینوں کے بعد معاون غذا کی فراہمی کا نظام الاوقات شروع کرنے کا ایک وقت مقرر کیا ہے جو صدیوں سے چلی آر ہی رسم اَن پراشن سے ہم آہنگ ہے۔ یہ رسم بھارتی ثقافتی پس منظر میں ایک اہم سنگ میل کہی جا سکتی ہے۔ معاون غذا کی فراہمی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خواتین اور اطفال ترقیات کی وزارت نے اَن پراشن دیوس کو معاشرتی بنیادوں پر ایک تقریب کی شکل میں منانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اہتمام آنگن واڑی کارکنان کے ذریعہ ملک بھر میں کیا جاتا ہے تاکہ ماؤں اور مقامی برادریوں کو بچوں کی غذا میں متنوع اور تغذیہ سے مالامال غذا کی شمولیت کی اہمیت کے بارے میں آگہی فراہم کی جا سکے۔روایتی فہم و دانش اور سماجی ثقافتی طریقہ ہائے کار کا استعمال کرتے ہوئے، جس کے ذریعہ سائنٹفک طور پر یہ پیغام عام ہو سکے، یہ طریقہ نوزائیدہ بچوں اور چھوٹے بچوں کو غذا کھلانے کے سلسلے میں اس کی قبولیت کے لیے بہترین طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔
تیسری بات، اس امر کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر چھوٹے بچے خواہ ان کا سماجی اقتصادی پس منظر کچھ بھی ہو، تغذیہ بخش خوراک تک ان کو رسائی حاصل ہو۔ یہ موجودہ سرکاری پروگراموں سے استفادہ کرنے کے لیے ازحد اہم ہے۔ خواتین اور اطفال ترقیات کی وزارت کی جانب سے چلایا جانے والا معاون تغذیہ پروگرام (ایس این پی ) جہاں ایک جانب ٹیک ہوم راشن (ٹی ایچ آر) اور گرم پکا ہوا کھانا (ایچ سی ایم) جیسی سہولتیں فراہم کرتا ہے جو چھ مہینے سے لے کر چھ سال تک کے بچوں کے لیے ہوتا ہے۔ یہ عمل ان کنبوں خصوصاً کم آمدنی کی حامل برادریوں کے کنبوں کے لیے زندگی کے ایک سہارے کے طور پر کام کرتا ہے جہاں تغذیہ بخش خوراک تک رسائی اکثر بہت محدود ہوتی ہے۔
چوتھی بات، صحت بخش خوراک کو فروغ دیتے ہوئے مساوی طور پر یہ بات بھی اہم ہے کہ بچوں کو رکھے ہوئے باسی کھانے اور حد سے زیادہ پکائے ہوئے کھانوں خصوصاً زیادہ چکنائی والے، شکر اور نمک آمیز کھانوں کے خطرات سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ جنک فوڈ، مثلاً کوکیز، چپس، نمکین، فوری طور پر تیار کیے جانے والے نوڈلس، سافٹ ڈرنکس اور بیکری میں تیار ہونے والی مصنوعات بدقسمتی سے اب بچوں کے مینو میں شامل ہو چکی ہیں۔ اضافی طور پر بڑے زور و شور سے فروخت کے لیے بے بی فوڈس کی تشہیر کی جاتی ہے جو سرکردہ کثیر ملکی برانڈس کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں حال ہی میں قومی اداروں مثلاً قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی نگرانی میں آئی ہیں کیونکہ ان چیزوں میں بڑے پیمانے پر شکر کے اجزاء خصوصاً بھارت میں فروخت کے لیے پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ جنک فوڈ کا استعمال بھارت میں چھوٹے بچوں میں عام ہو رہا ہے اور اس میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال بڑے پیمانے پر ایسا ہو رہا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہےکہ حالیہ سائنٹفک مشاہدات سے اشارہ ملا ہے کہ ان غیر صحت بخش کھانوں کو جب بچے کھاتے ہیں تو ان کے جسم میں موٹاپا، ذیابیطس جیسے امراض کی بنیاد پڑ جاتی ہے اور وہ بالغ ہوکر دائمی صحتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا پروسیس شدہ کھانوں کے مضر اثرات کے سلسلے میں بیداری پیدا کرنا ازحد اہم ہے اور والدین کو اس بات کے لیے حوصلہ افزائی فراہم کی جانی چاہئے کہ وہ صحت بخش متبادل اختیار کریں۔ یہ کامیابی معاشرتی تعلیم، میڈیا مہمات اور حفظانِ صحت فراہم کاروں کی سرگرم شراکت اور سماجی طور پر کام کرنے والے صحتی کارکنان کے تعاون سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ لوگ والدین کو معقول غذائی طریقہ ہائے کار اپنانے کے تئیں راغب کر سکتے ہیں۔
آخر میں، معاون غذا کی فراہمی ساتویں پوشن ماہ 2024 کا ایک عنصر تھاجس کے ذریعہ ماں اور بچے کے تغذیہ سے متعلق نظرانداز کیے گئے پہلوؤں اور ان سے وابستہ مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ مشاہدے پر مبنی طریقہ ہائے کار کو فروغ دے کر، ثقافتی روایتی طریقہ ہائے کار کو بروئے کار لاکر ، جن میں اَن پراشن جیسا طریقہ شامل ہے، قابل استطاعت اور مقامی طور پر دستیاب کھانے فراہم کرکے اور بچوں کو غیر صحت بخش کھانوں سے تحفظ فراہم کرکے بھارت سوئے تغذیہ کے خاتمے کے ترجیحاتی ایجنڈے سے نمٹنے کے معاملے میں اہم اقدام کر سکتا ہے۔ جن آندولن یا عوامی تحریک کے ساتھ حکومت کی کوششیں اس امر کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ تمام تر بچے ایسا تغذیہ حاصل کریں جس کی انہیں ضرورت ہے جو ان کی نشو و نما میں معاون ثابت ہو اور اس طریقے سے وہ ملک کے لیے ایک صحت بخش مستقبل کی بنیاد ڈال سکیں۔
بشکریہ پی آئی بی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیمہ کنندگان اپنی مارکیٹ شیئر بڑھانے کی پوزیشن میں…
پروگرام میں شفیق باغبان، جمال اظہر صدیقی، ڈاکٹر اے ایم خان، اکرم ایڈووکیٹ، نعیم خان،…
وزیر اعظم مودی نے بہار کے جموئی ضلع میں 150 ویں یوم پیدائش کے موقع…
اجتماع کے مقاصد پر بات کرتے ہوئے، سید سعادت اللہ حسینی صاحب نے کہا کہ…
وزیر داخلہ امت شاہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا بی جے پی منصفانہ…
McKinsey رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان 2027 تک دنیا کی تیسری…