قومی

Using AI for better surgery:بہتر جرّاحی کے لیے اے آئی کا استعمال

جیسون  چیانگ

مریضوں کے علاج میں درستگی اور کارکردگی کو بڑھانے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئےشرون  کمار مڈیلا اور پون منتھراودھی نے ۲۰۲۲ءمیں اسکائی چِپ روبوٹکس کی مشترکہ طور پر  بنیاد رکھی تاکہ روبوٹکس کے ساتھ مربوط اختراعی مصنوعی ذہانت (اے آئی )  پر مبنی  حل تیارکیے جا سکیں ۔

حیدرآباد میں واقع  اسٹارٹ اپ کا باوقار پروڈکٹ مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والا ایک خود مختار سرجیکل روبوٹک سسٹم ہے جسے  لیپرو اسکوپک اینڈو اسکوپک سرجنوں کو آپریشن کے دوران جرّاحی کے عمل کے دوران کیمروں کی نقل و حرکت کا بندوبست کرنے میں مدد کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ آپریشن کی درستگی اور اس کی اثر انگیزی کو بہتر بنانے ، جرّاحی کے عمل کے اوقات کو کم کرنے اور انسانی غلطی کے خطرے کو کم سے کم کرنے کے لیے اے آئی ایلگو رِدم کا استعمال کرتا ہے۔

نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ اور الائنس فار کمرشیلائزیشن اینڈ انوویشن ریسرچ  (اے سی آئی آر) کے درمیان شراکت داری والا اسکائی چِپ  نیکسس اسٹارٹ اپ ہب  میں۱۸ویںگروپ کا  حصہ تھا۔ نیکسس ا سٹارٹ اپس، اختراع کاروں اور سرمایہ کاروں کو جوڑتا ہے اور  نیٹ ورکس، تربیت،اتالیق  اور سرمایہ​​تکرسائی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ پیش ہیں مڈیلا کے ساتھ انٹرویو کے اقتباسات۔

آپ نے لیپرواسکوپکآپریشن کو ہدف بنانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

میرے شریک بانی پون  اور میں طبّی آلات کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ہماری تحقیق اور کام کے تجربے نے آپریشن کے دوران سرجنوں کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں بصیرت حاصل کرنے میں ہماری مدد کی۔ لیپرواسکوپک جرّاحی کو ہدف  بنانے کا فیصلہ بھی اس تکنیک کے وسیع استعمال سے متاثر ہوا۔

اس طرح کے آپریشن  کےلیے  بہتر تعاون سے  سرجن، معاونین،اسپتال اور مریض فیضیاب ہو سکتے ہیں ۔ ہمارا مقصد لیپرواسکوپک سرجنوں کو خود مختار طور پر کیمروں کو کنٹرول کرنے کی اجازت دینا ہے، اس طرح سرجری کے دوران درستگی اور فیصلہ سازی کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

آپ کو ٹیکنالوجی اور حفظان صحت  کے باہمی تعلق میں دلچسپی کیسے ہوئی؟ ان شعبوں میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے آپ کی کیا صلاح  ہے؟

میرا تعلق  آندھرا پردیش کے تروپتی ضلع کے ایک گاؤں سےہے۔ میں  بچپن میں ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، لیکن میرے خاندان کے مالی حالات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں تھا۔ اس کے باوجود میں نے الیکٹرانکس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اورطبّی  شعبہ سے منسلک رہنے کے لیے  عملی زندگی میں میڈیکل انجینئر بننے کا فیصلہ کیا ۔ فی الحال میں اے آئی اور طبّی آلات میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں ۔ میں نے اسٹارٹ اپ کمپنیوں اور بڑے کارپوریشنوں کے ساتھ کام کیا ہے۔

ابتدائی طور پر، میں نے عالمی سطح پر سستی اور  جدیدطبّی تکنیک  کی ضرورت محسوس کی۔ اے آئی  اور روبوٹکس کا استعمال کرتے ہوئے میرا مقصد ایسے حل تیار کرنا ہے جو طبّی علاج  کو زیادہ درست، ہموار اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک قابل رسائی بنائیں اور  بالآخر دنیا بھر میں مریضوںکی دیکھ بھال   میں بہتری آئے ۔

حفظان صحت کے شعبے میں کامیابی کے لیے  مریضوں  پر توجہ مرکوز کرنا  بہت ضروری ہے۔ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کے ساتھ مل کر ایک متنوع ٹیم کی تشکیل سے اختراع اور اثرانگیزی میں اضافہ ہوتا  ہے۔ مزید برآں، حفظان صحت  کے معیارات اور ضوابط کو سمجھنا اور ان پر عمل آوری  معیار اور حفاظت کو برقرار رکھنے کےلیے  ناگزیر  ہے۔

اے آئی  میں ایک کاروباری شخص کے طور پر آپ نے اس شعبے میں سب سے زیادہ امید افزا تبدیلی کیا دیکھی ہے کیونکہاسے اصل دھارے میں اپنایا جا رہا  ہے؟

سب سے زیادہ امید افزا تبدیلی جس کا میں نے مشاہدہ کیا وہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے روبوٹک نظام کا انضمام ہے جو حقیقی وقت میں ڈیٹا کی وسیع مقدار کا تجزیہ کرسکتا ہے ، پیچیدہ طریقہ کار میں سرجنوں کی مدد کر سکتا ہے اور کم ازکم متجاوز  تکنیکوں کے ذریعے مریض کے نتائج کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اے آئی  سے چلنے والے سرجیکل روبوٹس کی طرف سے پیش کی جانے والی بڑھتی ہوئی درستگی نے جرّاحی کے عمل  کو محفوظ اور تیز تر بنا دیا ہے۔

تاہم، ترقی کے باوجود اے آئی  پر مبنیجرّاحی سسٹمس کی زیادہ قیمت ان کی رسائی کو محدود کرتی ہے، خاص طور پر کم وسائل والے ڈھانچوں  میں۔ ان ٹیکنالوجیز کو زیادہ سستے اور وسیع پیمانے پر دستیاب کرانا  ایک اہم چیلنج ہے۔

مزید برآں، حفظان صحت میں اے آئی کے لیے  انضباطی منظرنامہ   اب بھیارتقائی مرحلہ طے کر رہا  ہے۔ اخلاقی معیارات کو برقرار رکھتے ہوئے، بالخصوص مریضوں کے ڈیٹا کی رازداری اور رضامندی سے متعلق  ضوابط پر عمل آوری کو یقینی بنانا بڑے پیمانے پر  اپنانے کے لیے  بہت ضروری ہے۔

نیکسس  پروگرام سے آپ کے اہم نکات کیا تھے؟ ان تجربات نے ٹیکنالوجی  اور حفظان صحت  میں ایک کاروباری شخص کے طور پر آپ کے سفر کو کیسے تشکیل دیا؟

نیکسس  پروگرام نے کاروباری پیشہ وری کے بارے میں ہماریتفہیم میں  نمایاں اضافہ کیا۔ یکے بعد دیگرے رہنمائی سے حاصل ہونے والی بصیرتوں نے عسکری معاملات میں مجھے وسعت نظری بخشی جس سے مجھےاسکائی چِپ  کی تکنیکی اختراعات کو حقیقی دنیا کے حفظان صحت کی ضروریات کے ساتھ مؤثر طریقے سے ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی۔  ممکنہ شراکت داروں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ  قائم کردہ  رابطوں  سے شراکت داری  میں سہولت فراہم  ہوئی   جو ہمارے پروجیکٹوں  کو آگے بڑھانے اورمالی اعانت ​​حاصلکرنےکےلیے  اہم ہیں۔کسی خیال یا منصوبے کی تجویز پیش کرنے اور کاروباری حکمت عملی سے متعلق ورکشاپوں نے ہماری قدر کی تجویز کے بارے میں  موثر طور پر بتانے اور  شراکت داروں  سے  دلچسپی اور تعاون کو اپنی طرف  مبذول کرنے کی میری صلاحیت کو نکھارا ۔

تربیت کے دوران  صارفین رخی  حل پر توجہ مرکوز کرنے سے ہماری ترقی کی کوششوں میں صارف   کے تجربات کو ترجیح دینے کی ضرورت کو تقویت ملی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ہماری ٹیکنالوجیز حقیقی صارف کے مسائل کو حل کرتی ہیں اور حفظان صحت  میں فرق پیدا کرتیہیں۔

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

بھارت ایکسپریس۔

Bharat Express

Recent Posts

Shah Rukh Khan threat case: شاہ رخ خان دھمکی معاملہ، عدالت نے فیضان خان کو 18 نومبر تک پولیس کی تحویل میں بھیجا

ملزم کے وکیل امت مشرا اور سنیل مشرا نے کہا کہ مبینہ واقعہ سے قبل…

1 minute ago

Delhi Mayor Election: بی جے پی کو جھٹکا، کراس ووٹنگ کے باوجود تین ووٹوں سے جیتے AAP کے مہیش کھینچی

دہلی کی سی ایم آتشی نے بھی عآپ کی اس جیت پر ردعمل ظاہر کیا۔…

33 minutes ago

Maharashtra: زبردست ریلیوں کے درمیان اسکون مندر پہنچے پی ایم نریندر مودی، عقیدت مندوں کے ساتھ بجایا مجیرا

جمعرات کو وزیر اعظم نریندر مودی مہاراشٹر کے پنویل پہنچے جہاں اسکون کے لوگوں نے…

2 hours ago

India’s Tribal Communities: ہندوستان کی قبائلی برادریوں کے لئے بہت سے کام پہلی بار ہوئے

آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ساتھ، جموں و کشمیر میں درج فہرست قبائل کی برادریوں…

3 hours ago

How Tribal India Went from Forgotten to Empower! قبائلی ہندوستان کا فراموشی سے بااختیار بننے تک کا شاندار سفر

سنہ 2014 سے قبل ہندوستان کی قبائلی برادریوں کو ایک شدید جدوجہد کا سامنا کرنا…

4 hours ago