قومی

امتحان کے لئے پرائیویٹ اداروں سے فرنیچر منگوا رہا یوپی ٹیکنیکل ایجوکیشن بورڈ

کالج تیرے نام کے، بچے تیرے نام کے، فیس تیرے نام کی تو خرچ بھی تیرے نام کا…
یہ منوج منتشیر کی نئی فلم کا ڈائیلاگ نہیں ہے۔ یہ اترپردیش حکومت کے افسران کا پیغام، جسے ٹیکنیکل ایجوکیشن بورڈ نے بخوبی اپنا لیا ہے۔ بورڈ نے اس بار پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے بچوں کا امتحان سرکاری اداروں میں لیا تھا۔ لیکن کنگال ڈائریکٹوریٹ وہاں اپنے دم پرانتظام کرانے میں ناکام ثابت ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری اداروں کی حالت زارپرافسوس کا اظہارکرتے ہوئے پرائیویٹ اداروں کے نام احکامات جاری کئے گئے ہیں، جس میں ڈائریکٹوریٹ کے سیکریٹری نے نجی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ سرکاری امتحانی مراکز میں فرنیچر سے لے کراسٹیشنری تک ہرچیز فراہم کریں۔ ورنہ اسے نافرمانی سمجھا جائے گا۔

یہ ہے پوری کہانی
دراصل، اترپردیش میں تقریباً ایک ہزاراداروں میں ڈی فارما کی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ ان میں سے 995 کالجوں کی ملکیت نجی ہاتھوں میں ہے۔ ایک الزام تھا کہ یہ ادارے اپنے مراکزپرسمسٹریا سالانہ امتحان میں بھی دھوکہ دہی کرتے ہیں۔ ذرائع کی مانیں توایسی شکایات کی بنیاد پراس باربھی سمسٹر/سالانہ امتحانات پرائیویٹ اداروں کے بجائے سرکاری کالجوں اور اداروں کے کیمپس میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

امتحانی فیس وصول کی، لیکن کھڑے کئے ہاتھ 
ریاست کے تمام اداروں میں تقریباً 50 سے 70 ہزار طلباء ڈی فارما کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ نجی ادارے کی انتظامیہ کے مطابق بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ہر طالب علم سے امتحانی فیس کے نام پر 570 روپے لیتا ہے۔ جب پرائیویٹ اداروں میں امتحان ہوا تو فی طالب علم امتحانی فیس نجی اداروں کو دی گئی۔ ایسے میں جب حکومت اپنے اداروں میں امتحانی مراکز قائم کر رہی ہے تو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود ان مراکز پر انتظامات کرے۔

یہاں بیوروکریسی کرتی ہے فیصلے
آپ کو یہ جان کربھی حیرت ہوگی کہ ٹیکنیکل ایجوکیشن بورڈ نے سرکاری اداروں میں امتحانات کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے، لیکن ان کے تغلقی فرمان سے ریاستی حکومت کے کام کاج پرسنگین سوالات اٹھنے لگے۔ بورڈ کے سکریٹری راکیش ورما نے 4 جولائی کو ایک حکم نامہ جاری کیا ہے، جس میں پرائیویٹ اداروں کے ڈائریکٹرزاورپرنسپلوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ انہیں سرکاری امتحانی مراکزمیں سہولیات فراہم کرنی ہوں گی۔

سرکاری مراکز پر کیا لانا ہے
ٹیکنیکل ایجوکیشن بورڈ کے سکریٹری راکیش ورما نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ نجی ادارے ضرورت کے مطابق نہ صرف لیزر پرنٹر، فوٹو کاپیر بلکہ فرنیچر بھی سرکاری مراکز پر فراہم کریں گے۔ اس کے ساتھ یہ ہدایات بھی دی گئیں کہ اس معاملے میں نافرمانی کے برے نتائج بھی بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ اس سے قبل آگرہ کے مانکھیڑا میں پولی ٹیکنک کالج کے پرنسپل نے بھی پرائیویٹ اداروں کو ایک خط لکھا تھا، جس میں انہیں امتحانی مرکز میں کپڑا اور ڈیزل کے ساتھ اسٹیشنری، پرنٹر اور فرنیچر فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
حکومت کو مشکلات کا سامنا
حکومت کے فلاحی اسکیموں کے درمیان بیوروکریسی کا یہ تغلقی فرمان حکومت کے دامن پرداغ لگا رہا ہے۔ ایک سینئرعہدیدارکے مطابق اس طرح کے حکم ناموں سے عوام میں یہ تاثرپیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سرکاری کالج اورادارے اتنے خستہ حال ہوچکے ہیں کہ ان میں طلبہ کے بیٹھنے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔

 بھارت ایکسپریس

Subodh Jain

Recent Posts

Parliament Winter Session: پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس 25 نومبر سے 20 دسمبر 2024 تک چلے گا

Parliament Winter Session: پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے ٹویٹ کیا، "پارلیمنٹ کا سرمائی…

8 mins ago