-بھارت ایکسپریس
Supreme Court on Delhi Govt vs LG: سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بینچ آج جمعرات (11 مئی) کو دہلی حکومت اور مرکزکے درمیان تنازعہ پراپنا اہم فیصلہ سنا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی بینچ نے انتظامی خدمات پرکنٹرول سے متعلق دہلی حکومت کی عرضی پرمتفقہ فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم جسٹس بھوشن کے 2019 کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ جسٹس بھوشن نے 2019 میں مکمل طور پرمرکزکے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے دہلی حکومت کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا، دہلی حکومت دہلی حکومت کے پاس قانون سازی اورانتظامی اختیارہے، یہ وہی اختیارات ہیں جو دہلی حکومت کو حاصل ہیں۔ حالانکہ دارالحکومت دہلی دوسرے مرکز کے زیرانتظام ریاستوں سے الگ ہے، اس لئے اس میں کچھ حصوں جیسے پولیس، لاء اینڈ آرڈر اور زمین کو چھوڑ کر باقی سبھی چیزوں پر اسمبلی کا اختیار ہونا چاہئے۔
آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا، ہمارے سامنے محدود موضوع یہ ہے کہ ہم مرکز اور دہلی حکومت کے ایگزیکٹیو طاقتوں کا جائزہ لیں۔ اس لئے سال 2019 میں آئے جسٹس بھوشن کے فیصلے (پورا کنٹرول مرکز کو) سے متفق نہیں ہیں۔
سال 2018 میں آئینی بینچ نے دہلی حکومت کو کچھ اختیار دیئے تھے۔ آرٹیکل 239 اے اے دہلی اسمبلی کو کئی اختیارات دیتا ہے، لیکن اس میں اس کو مرکز کے ساتھ توازن بنانے کو کہا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کو بھی دہلی کے کچھ معاملوں میں اختیارات حاصل ہے۔ حالانکہ 239 اے اے پولیس، لاء اینڈ آرڈر اور زمین سے متعلق اختیارات دہلی اسمبلی کو نہیں دیتا ہے۔
دہلی اسمبلی کے رکن دوسری اسمبلی کی طرح سیدھے لوگوں کی طرح سے منتخب کئے جاتے ہیں، اس لئے جمہوریت اور جمہوری ڈھانچے کے احترام کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ چونکہ این سی ٹی مکمل ریاست نہیں ہے، لیکن اس کی اسمبلی ریاست اور سرحدی فہرست سے متعلق قانون بناسکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو ان کے اختیارات کے بارے میں ان کو جانکاری دیتے ہوئے کہا، سرحدی فہرست کے کچھ موضوعات پر مرکز کا کنٹرول اس طرح نہیں ہوسکتا کہ ریاست کا کام کاج متاثرہو۔ لیفٹیننٹ گورنر کے کام کرنے کی طاقت ان معاملوں پر منحصر کرتی ہیں جو اسمبلی کے دائرے میں نہیں آتے ہیں۔
جمہوریت میں منتخب حکومت کو اختیارات ملنا چاہئے، اگر ریاستی حکومت کو ان کی خدمات میں مقرر افسران پر کنٹرول نہیں ہوگا تو یہ ٹھیک بات نہیں ہے، کوئی بھی اختیار حکومت کی بات نہیں سنے گا۔ مثالی صورت حال یہ ہوگی کہ دہلی حکومت اپنے عہدیداروں پرمکمل کنٹرول حاصل کرے۔ اس میں وہ چیزیں شامل نہیں ہیں، جن پر قانون سازاسمبلی کا اختیارنہیں ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے آئینی بینچ میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس ایم آرشاہ، کرشن مراری، ہما کوہلی اور پی ایس نرسمہا شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دہلی میں حکومت کے پاس اختیارات کم ہیں کیونکہ وہ مرکز کے زیر انتظام صوبہ ہے۔ خدمات پر دہلی حکومت کا کنٹرول ہونا چاہئے۔ دہلی حکومت کو ٹرانسفر، پوسٹنگ کا اختیار ہے۔
-بھارت ایکسپریس
کھرگے نے کہا کہ جھارکھنڈ میں پی ایم مودی کی تقریر ایک جملہ ہے۔ ان…
جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات سے پہلے ملک کی سب سے بڑی جانچ ایجنسی سینٹرل بیورو…
یو پی مدرسہ ایکٹ کو برقرار رکھتے ہوئے ، سپریم کورٹ نے توثیق کردی ہے…
قرآن کانفرنس میں احکام قرآن کی خلاف ورزی کیوں ؟ کیا مراقبہ کے لحاظ سے…
سی ایم ای پونے، 1943 میں قائم ایک باوقار ملٹری انسٹی ٹیوٹ، اس منفرد تقریب…
نیشنلسٹ موومنٹ کے رہنما دیولت باہسیلی نے کہا کہ "اگر دہشت گردی کا خاتمہ ہو…