قومی

Munawwar Rana passes away: عالم ہے سوگوار کے ’’رانا‘‘ نہیں رہے

جب تک ہے ڈور ہاتھ میں تب تک کا کھیل ہے

دیکھی تو ہوں گی تم نے پتنگیں کٹی ہوئی

زندگی کی حقیقی تصویر کشی کرنے والے اس شعر کے خالق  معروف شاعر منور رانا  اب ہمارے بیچ میں نہیں رہے ۔ اتر پردیش کی دارالحکومت لکھنؤ میں واقع سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ،لکھنؤ میں اتوار کی رات کو  ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ کافی عرصے سے بیمار تھے۔منور رانا نے اپنی ایک کتاب میں  لکھا ہے کہ میری زندگی کا حاصل یا میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اس چاہت کی تکمیل ہے کہ جب میرے مرنے کی خبر لوگوں تک پہنچے تودسترخوان پر بیٹھا ہوا شخص بھی عقیدت ومحبت میں اپنا ہاتھ روک لے۔ لیکن شاید یہ منور رانا کو بھی نہیں معلوم رہا ہوگا کہ ان کی یہ خواہش اس انداز میں پوری ہوگی کہ جوان رات کی تاریکی میں چپکے سے داغ مفارقت دینے کے بعد بھی لوگ گہری نیند سے سکتے میں اٹھ کر بیٹھ جائیں گے اور دعائے مغفرت کرنے لگیں گے۔انہیں یاد کرنے لگیں گے ،اور رات کے سنناٹے میں ایک ہی نام تیزی سے گونج رہا ہوگا  اور وہ بھی منور رانا کا ۔ 14 جنوری کی رات کو قریب 12 بجنے سے قبل جیسے ہی منور رانا کے انتقال پرملال کی خبر آئی ،لوگوں نے اسے پہلے پہل برا خواب کہہ کر ٹال دیا ،لیکن بہت جلد یہ یقین ہوگیا کہ منور رانا حقیقت میں مالک حقیقی سے جاملے ہیں اور اس دنیا فانی کو الوداع کہہ دیا ہے۔ منور رانا کے انتقال سے صرف اردو برادری ہی نے پہلے پوری ادبی دنیا میں غم کا ماحول ہے اور لوگ انہیں بار بار مخلتف حوالوں سے یاد کررہے ہیں چونکہ ان کی زندگی مختلف حوالوں اور ان کی شخصیت متعدد پہلوں کی ایک جامع ومانع تصویر ہے۔

منور رانا جن کی عمر 71 برس تھی وہ ، 26 نومبر 1952 کو رائے بریلی میں پیدا ہوئے، انہیں سال 2014 میں ساہتیہ اکادمی سے نوازا گیا۔ 2012 میں انہیں اردو ادب کی خدمت کے لئے شہید ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ماٹی رتن ایوارڈ  سے نوازا گیا۔منور رانا گردے کی دائمی بیماری میں مبتلا تھے، وہ ایس جی پی جی آئی، لکھنؤ میں زیر علاج تھے۔ منور رانا طویل عرصے سے وینٹی لیٹر پر تھے۔ رانا، جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ میں گزارا، اپنے شاعری میں ہندی اور اودھی کا زیادہ استعمال کرتے رہے۔

منور رانا کئی مواقع پر بحث اور سرخیوں کا حصہ بنے۔ 2015 میں، دادری، نوئیڈا، یوپی میں ہجومی تشدد میں اخلاق کے قتل کے بعد، انہوں نے اپنا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ واپس کر دیا۔ مئی 2014 میں اس وقت کی ایس پی حکومت نے رانا کو اتر پردیش اردو اکادمی کا چیئر مین  مقرر کیا تھا۔ تاہم انہوں نے اکیڈمی میں بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ اردو ادب کی دنیا میں ایک معتبر اور مقبول نام منور رانا ہیں۔ انھوں نے اردو ہی نہیں بلکہ ہندی شاعری میں بھی اپنا نام روشن کیا ہے۔ اردو اور ہندی ادبی دنیا میں عالمی سطح پر مشہور منور رانا کی پیدائش اتر پردیش کے شہر رائے بریلی میں، سنہ 1952ء میں ہوئی۔ ان کے رشتہ دار مع دادی اور نانی، تقسیم ہندوستان کے وقت پاکستان ہجرت کر گئے۔ لیکن ان کے والد صاحب، بھارت سے اٹوٹ محبت کی وجہ سے بھارت ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ بعد میں ان کا خاندان کولکتہ منتقل ہو گیا۔ یہیں پر منور رانا کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔منور رانا کی شاعری میں غزل گوئی ہی نے جگہ لی۔ ان کے کلام میں ‘ماں‘ پر لکھا کلام کافی شہرہ یافتہ ہے۔ ان کی غزلیں، ہندی، بنگلہ (بنگالی) اور گرومکھی زبانوں میں بھی ہیں۔

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی!

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

منور رانا نے اپنے کلام میں روایتی ہندی اور اودھی زبان کو بخوبی استعمال کیا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں کافی شہرت اور مقام ملا۔منور رانا کی ادبی شخصیت کو پروان چڑھانے میں لکھنؤ کے ماحول کے علاوہ خاص طور پر ان کے ادب نواز دادا مرحوم سید صادق علی کا گہرا اثر رہا جو ان سے عہد طفلی میں دوسروں کی غزلیں باقاعدہ پڑھوایا کرتے تھے تاکہ ادب میں ان کی دلچسپی بڑھے اور انھیں تحریک ملے، جس نے آگے چل کر حقیقت کا روپ دھار لیا۔ شاید اسی ریاضت کا ثمرہ ہے کہ آج بھی منور رانا کو ہزارہا اشعار ازبر تھے۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی فلم اور شاعری ان کی کمزوری رہی۔ پہلے پہل وہ شاعری سے ازحد متاثر تھے لیکن عہد شباب میں اپنے مزاج کی ناہمواری کے باعث ان کی آنکھیں فلم کی مصنوعی چمک دمک سے چکاچوند ہوگئیں۔ لہذا وہ فلم کی طرف مائل ہوگئے۔ اور فلم سے وابستگی کی ٹھان لی۔ جس کی شروعات انھوں نے فلمی اداکاروں کی آوازوں کی نقالی سے کی۔ اس عمل میں منور رانا کئی فلمی اداکاروں کی آوازیں نقل کرنے میں ماہر ہوگئے لیکن فلم اسٹار شتروگھن سنہاکی آواز کی نقل اس حد تک کرنے لگے کہ حقیقت کا گمان ہونے لگا اور انھیں ’’کلکتہ کا شتروگھن سنہا‘‘ بھی کہا جانے لگا۔

انہیں دنوں منور رانا نے کچھ افسانے اور منی کہانیاں بھی لکھیں جو کئی مقامی اخباروں میں شائع ہوئیں۔ چونکہ ان کے سر پر فلم کا آسیب سوار تھا لہذا وہ ڈراموں کی طرف راغب ہوگئے۔ اس طرح ۱۹۷۱ میں انھوں نے اپنا پہلا ڈراما ’’جئے بنگلا دیش‘‘ کلکتہ کے ہومیوپیتھی کالج میں منعقدہ سہ لسانی ڈراما مقابلے کے لیے نہ صرف تحریر کیا بلکہ اس کی ہدایت کاری بھی انجام دی اور جسے انعام یافتہ بھی قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پرتھوی راج اور آغا حشر کاشمیری کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ بالخصوص سجن کمار کی زیر ہدایت آغا حشر کاشمیری کا ڈراما ’’ آنکھ کا نشہ‘‘ میں بینی پرشاد کے مرکزی کردار میں ان کی اداکاری اتنی پسند کی گئی کہ اس ڈراما کے کئی کامیاب شوز منعقد کیے گئے۔ بالآخر انھوں نے فلم اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر جوگندر کی ایک فلم ’’گیتا اور قرآن‘‘ کے لیے کہانی لکھ کر ہی دم لیا، جس کا ٹائٹل اندراج بھی ہوا تھا لیکن کسی وجہ سے یہ فلم نہ بن سکی۔ اس ناکامی کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے سر سے فلم کا آسیب ہی اتر گیا اور وہ مغربی بنگال کی تاریخ شاعری کی زندہ روایات کا مستحکم عزم لے میدان شاعری میں آگئے اور اس فن میں غزل کو انھوں نے اپنا وسیلۂ اظہار بنایا۔

گلستان شاعری میں سید منور علی نے خود کو ۷۰۔۱۹۶۹ میں قلبی واردات ، احساسات اور جذبات کی چنگاری سے ’’منور علی آتش‘‘ بن کر متعارف کرایا۔ اس طرح میدان شعروسخن کے ابتدائی دنوں میں وہ پروفیسر اعزازؔ افضل کے حلقۂ تلمذ میں شامل ہوگئے اور ان سے اکتساب فیض کرتے ہوئے اپنی شعلہ بیانی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ہرچندکہ انھوں نے اپنی عمر کے سولہویں سال میں پہلی نظم کہی جو محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کے مجلے میں چھپی لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق ۱۹۷۲ میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’شہود‘‘ میں شائع ہوئی۔ آگے چل کر منور رانا نے نازش پرتاپ گڑھی اور رازؔ الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدلا اور ’’منور علی شاداں‘‘ بن کر غزلیں کہنے لگے۔ بعد ازاں انھوں نے جب والی آسیؔ سے شرف تلمذ حاصل کیا تو ان کے مشورے سے ۱۹۷۷ میں ایک مرتبہ پھر اپنا تخلص بدلا اور ’’منورؔرانا‘‘ بن گئے۔ اس طرح سید منور علی کو منور علی آتش سے منور علی شاداںؔ اور پھر منور رانا بننے تک پورے نو سال کا عرصہ لگ گیا۔ اس مدت میں انھوں نے مشق سخن جاری رکھی اور اپنی فکر کی پرواز کو اوج کمال تک پہنچایا۔یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے کسی بھی کونے ایک بھی شخص ایس ہو جو اردو شاعری سے دلچسپی رکھتا ہو ،وہ منور رانا کو ضرور جانتا ہوگا، یہی منور رانا کی زندگی کا حاصل ہے اور یہی ان کی پہنچان۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts

Parliament Winter Session: پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس 25 نومبر سے 20 دسمبر 2024 تک چلے گا

آنے والے سرمائی اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ 26 نومبر کو یوم دستور…

40 mins ago