لوک سبھا الیکشن 2024 میں بی جے پی تاریخ رقم کرنے کے موڈ سے اتر رہی ہے۔ وزیراعظم مودی نے بی جے پی کو 370 سیٹ اوراین ڈی اے کو 400 پار سیٹیں جیتنے کا نعرہ دیا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں 400 پار سیٹیں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد محض ایک بار ہی کانگریس جیت سکی ہے اور ملک میں مسلسل تین بار الیکشن جیت کروزیراعظم بننے کی تاریخ بھی پنڈت جواہرلال نہرو کے نام درج ہے۔ اب وزیراعظم مودی نے اقتدارکی ہیٹ ٹرک لگانے اور 400 پار سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا ہے، جسے پورا کرنے کے لئے ہرممکن کوشش ہو رہی ہے۔ بی جے پی جنوبی ہندوستان اور مسلم اکثریتی سیٹوں پرجیت درج کئے اپنے مقررہ ہدف کو پورا نہیں کرسکی ہے، جس کے لئے راست طور پرسادھنے کے بجائے سائلنٹ یا خفیہ مسلم پلان بنایا ہے۔
ملک میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فیصد ہے، لیکن وہ پانچ درجن سے زیادہ لوک سبھا سیٹوں پرجیت اورہارکا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تین درجن نشستوں پران کا اہم کردارہے۔ ایسے میں مسلم ووٹوں کی سیاسی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سیاسی پارٹیاں انہیں اپنی طرف لانے کی کوشش کررہی ہیں۔ بی جے پی ہندوتوا کے ایجنڈے پرانتخابی بساط بچھانے میں مصروف ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹوں کو براہ راست اپنی طرف لانے کی کوشش کرنے کے بجائے وہ اپنے اتحادی ساتھیوں کے ذریعے سیاسی تانا بانا بُن رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے ان پارٹیوں کو بھی اپنے الائنس میں شامل کیا ہے، جن کا مسلم کمیونٹی میں اچھا خاصا اثرہے۔
این سی پی کے اجیت پوار، جو حال ہی میں بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کے ساتھ ہیں، سے لے کرآرایل ڈی کے سربراہ جینت چودھری اورجے ڈی یو کے سربراہ نتیش کمار تک، ان تمام لیڈران کی مسلمانوں کے درمیان مقبولیت رہی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ ہونے کے باوجود نتیش کمارمسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں اورجینت چودھری مسلسل جاٹ اورمسلمانوں کے سہارے ہی کام کرتے رہے ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ الائنس کرنے کے بعد بھی آرایل ڈی کے مسلم اراکین اسمبلی نے نہ تو انہیں چھوڑا ہے اورنہ ہی باغی رخ اختیارکیا ہے۔ بلکہ وہ جینت چودھری کے ساتھ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مسلم اراکین اسمبلی اجیت پوار کے ساتھ بھی بنے ہوئے ہیں اورحال ہی میں بابا صدیقی نے کانگریس چھوڑکراین سی پی میں شمولیت اختیارکی ہے۔
مسلمانوں کو خوش کرنے میں مصروف ہیں اجیت پوار
این سی پی پرقبضہ جماکربی جے پی کے ساتھ مل کر نائب وزیراعلیٰ بنے اجیت پوارمسلمانوں کو اپنے حق میں لانے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں رائے گڑھ میں ایک اجلاس کے دوران مسلمانوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے نظرآئے۔ اجیت پوارنے مسلم خواتین کوایجوکیشن کے مین اسٹریم میں لانے کے لئے خواتین اورمردوں کے لئے الگ الگ ہاسٹل بنانے کی بات کہی ہے۔ اس دوران قبرستانوں اورعیدگاہوں کو تجاوزات (انکروچمنٹ) سے بچانے کے لئے حفاظتی دیواروں کی تعمیر، اردواسکولوں میں اساتذہ کی بھرتی، ذات پات کی مردم شماری، مسلمانوں کو خصوصی ریزرویشن دینے اورپسماندہ طبقات کے لئے بنائی گئی ‘بارٹی’ کی طرزپرمسلمانوں کے لئے ‘مارٹی’ کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔ اسے مسلمانوں کوجوڑنے کے نقطہ نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
مہاراشٹر میں مسلمانوں کے ایک حصے میں ادھو ٹھاکرے کی گرفت مضبوط ہورہی ہے۔ کانگریس، شرد پواراورادھو ٹھاکرے کے ایک ساتھ آنے کی وجہ سے 2024 میں مسلم ووٹوں کے بکھرنے کا امکان کم نظرآتا ہے۔ ریاست میں مسلم ووٹروں کی تعداد تقریباً 16 فیصد ہے، جن میں اسدالدین اویسی اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ کانگریس اورادھو ٹھاکرے بھی ان پرنظر جمائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں مسلم ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے فرنٹ فٹ پرآنے کے بجائے بی جے پی اجیت پوارکے ذریعہ بیک ڈورکارڈ کھیل رہی ہے تاکہ مسلمانوں کے ایک طبقے کے کچھ ووٹ جوڑے جا سکیں۔ اس فارمولے کے تحت اجیت پوارنے کانگریس کے سینئرلیڈررہے بابا صدیقی کو شامل کیا ہے اورشرد پوارکے قریبی نواب ملک بھی ان کے ساتھ ہیں۔
نتیش کمار کیا بہار میں ثابت ہوں گے ٹرمپ کارڈ؟
نتیش کمارکی سیاسی کروٹ کے ساتھ ہی بہارکے سیاسی حالات بدل گئے ہیں۔ بھلے ہی نتیش کمارنے بی جے پی کے ساتھ مل کردوبارہ حکومت بنائی ہے، اب ان کی توجہ مسلم ووٹوں کو برقراررکھنے پرہے۔ حالانکہ نتیش کماراس سے پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ تھے، اس لئے انہیں مسلمانوں کے ایک طبقے کا ووٹ ملتا رہا ہے، لیکن ان کی گرفت تھوڑی کمزورہوگئی ہے۔ سال 2020 میں جے ڈی یوسے ایک بھی مسلم ایم ایل اے منتخب نہیں ہوسکا، اس لئے نتیش نے بی ایس پی کے ٹکٹ سے ایم ایل اے زماں خان کو کابینہ کا حصہ بنایا تھا۔ جے ڈی یونے 11 مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے، جبکہ 2015 میں پارٹی کے 5 مسلم ایم ایل اے تھے۔ مانا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کے بعد نتیش ایک بارپھرزماں خان کو وزیربنا سکتے ہیں۔
دراصل بہارمیں تقریباً 16 فیصد مسلم ووٹرس ہیں۔ ریاست میں لوک سبھا کی 8 سیٹیں ایسی ہیں، جہاں مسلم ووٹروں کا اہم رول ہے۔ ان علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی 20 سے 40 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ سیمانچل کی چاروں لوک سبھا سیٹوں پرمسلم ووٹرس فیصلہ کن کردارادا کر رہے ہیں۔ بی جے پی کواچھی طرح معلوم تھا کہ نتیش کمارکے مخالف کیمپ میں ہونے کی وجہ سے مسلم ووٹ متحد رہ سکتا ہے، جس کی وجہ سے اسے کئی سیٹوں پرسخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ نتیش کمارکے این ڈی اے میں شامل ہونے کے بعد، بی جے پی کو پچھلے دروازے سے مسلم ووٹروں کو جوڑنے کا آپشن نظرآرہا ہے، کیونکہ جے ڈی یو مسلم لیڈروں کے ساتھ الیکشن لڑتی رہی ہے اورووٹ بھی حاصل کرتی رہی ہے۔ ایسے میں بی جے پی سے ہاتھ ملانے کے بعد نتیش کماراب مسلم کمیونٹی کا اعتماد جیتنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کے لئے انہوں نے اپنے قریبی مسلم لیڈروں کواس مہم میں لگا دیا ہے۔
جینت چودھری مسلمانوں کو جوڑنے میں کتنا ہوں گے کامیاب؟
سماجوادی پارٹی کے ساتھ الائنس توڑ کر بی جے پی کے ساتھ آئے آرایل ڈی سربراہ جینت چودھری کا سیاسی گراف مغربی یوپی کے علاقے میں ہے۔ ان کی پکڑجاٹ ووٹروں کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان بھی ہے۔ مغربی یوپی کی کئی سیٹوں پرمسلم ووٹرفیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں، جوکسی بھی پارٹی کا کھیل بنانے اوربگاڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان بی جے پی جانتی ہے کہ اس کی کتنی پکڑ ہے اور اگرکھل کرانہیں سادھنے کی کوشش کرتی ہے توپھرہندوووٹوں کے چھٹک جانے کا خدشہ ہے۔ بی جے پی نے اسی حالات کے پیش نظرجینت چودھری کو اپوزیشن کے خیمے سے اپنے ساتھ لائی ہے تاکہ جاٹ ووٹوں کویکطرفہ طریقے سے اپنے ساتھ لایا جاسکے اورمسلمانوں کو پچھلے دروازے سے اپنے پالے میں لایا جاسکے۔
دراصل، مسلمان اورجاٹ ووٹرس ہی آرایل ڈی کے روایتی ووٹرس رہے ہیں۔ کچھ مواقع کو چھوڑ دیا جائے تو چودھری چرن سنگھ، چودھری اجیت سنگھ سے لے کر جینت چودھری تک ان طبقوں کاتقریباً یکمشت ووٹ آرایل ڈی کو ملتا رہا ہے۔ اسی فارمولے کی بدولت اجیت سنگھ مرکز اورصوبے کی سیاست میں اپنی شناخت بنائے رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔ جینت چودھری کے بی جے پی کے ساتھ جانے سے سیاسی حالات بدلے ہیں، لیکن آرایل ڈی کے مسلم اراکین اسمبلی نے بھی ابھی تک ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ مسلم ووٹوں کو ساتھ رکھنے کے لئے جینت چودھری یوپی میں اپنے ایک مسلم ایم ایل اے کو وزیربھی بنوا سکتے ہیں۔ بی جے پی سے الائنس کرنے کے بعد بجنورضلع کے سیوہارا کے مسلم چیئرمین فیصل وارثی نے آرایل ڈی کا دامن تھام لیا ہے۔ شاہد صدیقی، ڈاکٹر معراج الدین وراحتشام خان جیسے مسلم لیڈرآرایل ڈی میں ہیں، جن کا مغربی یوپی کی سیاست میں ایک اہم نام ہے۔
مسلم ووٹروں کی این ڈی اے کو ضرورت
سیاسی ماہرین کے مطابق، بی جے پی بھلے ہی مسلم ووٹوں کو سادھنے کے لئے کھل کر داؤں نہ کھیل رہی ہو، لیکن اسے اس کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اپنے اتحادی جماعتوں کے ذریعہ ضرور ان پر ڈورے ڈال رہ ہے۔ مسلم ووٹ ملک کی کئی ریاستوں میں فیصلہ کن کردار میں ہیں، جنہیں بغیرساتھ لئے این ڈی اے چار سو پار کے نمبرتک نہیں پہنچ سکتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں جس طرح سے متحد ہوکر2024 کے لوک سبھا الیکشن میں اترنے کا پلان بنا رہی ہیں، اس کے پیچھے ایک حکمت عملی مسلم ووٹوں کو متحد رکھنے کی ہے۔
اس بات کو بی جے پی بخوبی سمجھ رہی ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ مسلم ووٹرس اگریکمشت ووٹ اس کے خلاف کسی ایک پارٹی کو ووٹ کرتے ہیں تو پھر ملک میں 80 لوک سبھا سیٹیں وہ نہیں جیت سکے گی۔ اس لئے بی جے پی کی حکمت عملی ہے کہ مسلم ووٹوں کو سادھنے کے لئے بھلے ہی وہ براہ راست داؤں نہیں کھیلے گی، بلکہ اتحادی پارٹیوں کے ذریعہ اس میں سیندھ لگائے گی۔ بی جے پی اپنی اس حکمت عملی سے اپوزیشن کو ملنے والے مسلمانوں کے یکطرفہ ووٹ کو جانے سے روکنے کی حکمت عملی ہے تو دوسری طرف اتحادیوں کے ذریعہ سیندھ لگانے کی کوشش ہے۔
بھارت ایکسپریس۔
لندن میں امریکی سفارت خانہ نے کہا کہ مقامی افسرلندن میں امریکی سفارت خانہ کے…
ایڈوکیٹ وجے اگروال نے اس کیس کا ہندوستان میں کوئلہ گھوٹالہ اور کینیڈا کے کیسوں…
بی جے پی لیڈرونود تاؤڑے نے ووٹنگ والے دن ان الزامات کوخارج کرتے ہوئے کہا…
سپریم کورٹ نے ادھیاندھی اسٹالن کو فروری تک نچلی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دیتے…
آسٹریلیا کو ابھی تک پانچ وکٹ کا نقصان ہوچکا ہے۔ محمد سراج نے مچل مارش…
کیجریوال نے کہا، 'وزیر اعظم مودی نے کئی بار کہا ہے کہ کیجریوال مفت ریوڑی…