قومی

Happy Gandhi Jayanti: گاندھی جی کے تینوں بندر مر گئے

آج دو اکتوبر ہے یعنی گاندھی جینتی ہے ،اس موقع سے ایک طرف جہاں باپو کو ملک بھر میں خراج پیش کیا جارہا ہے وہیں مہاتما گاندھی کے 154 ویں یوم پیدائش پر ان کے کارناموں، خیالات اور اصولوں کو بھی یاد کیا جا رہا ہے۔ مہاتما گاندھی کی فکر اور ان کے کارناموں کے ساتھ ساتھ ان کے تین بندر بھی کافی مشہور ہیں ۔ یہ تینوں بندر اپنے آپ میں پوری دنیا کو بہت کارآمد پیغام دیتے رہے ہیں لیکن باپو  کے ان تینوں بندر کو باپو کے ہی ماننے والوں نے آج مار دیا ہے ۔ اب تینوں بندر مرچکے ہیں اور اس کو ثابت کرنے کیلئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ،آپ جاگتی آنکھوں سے ہندوستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں گے تو اندازہ ہوجائےگا کہ آج گاندھی جی کے تینوں بندر مرچکے ہیں۔

میزارو: یہ گاندھی جی کا پہلا بندر تھا ، یہ بندر اپنی دونوں آنکھیں بند رکھتا تھا تاکہ وہ کچھ بھی برا نہ دیکھ سکے۔ گاندھی جی اپنے اس بندر کے ذریعے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ کچھ بھی برا نہ دیکھیں ، لیکن آج یہ بندر مر چکا ہے ،چونکہ آج ہر شخص برائی کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہے اوراس میں  ملوث  بھی نظرآرہا ہے ۔ سیاسی گلیاروں سے لیکر سماجی اور معاشرتی سطح پر آپ غور کریں گے تو اندازہ ہوگا کہ آج قریب ہر شخص برائی کو دیکھنے سے گریز نہیں کرتا،یہاں تک کہ وہ براکام  کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا ۔

کیکازارو:یہ باپو کا دوسرا بندر تھا ۔ یہ بندر اپنے کان بند کرکے رکھتا تھا تاکہ وہ برا نہ سن سکے۔ کسی بھی قسم کی برائی کو سننے سے بچنے کیلئے یہ بندر اپنا دونو ں کان بند رکھتا تھااور اس کے ذریعے یہ پیغام بھی دیتا تھا کہ ہمیں برائی نہ سننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج عالم یہ ہے کہ ہر شخص برائی کو سن رہا ہے۔صبح سے شام تک، کام سے آرام تک ، گھر سے باہر تک ،ہر جگہ آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے جن کے کان برائی کو سننے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں ۔ برائی کو سننے کے بعد انہیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ برائی جو ہم سن رہے ہیں اس کو روکنے کیلئے کچھ کرنا چاہیے۔ بری باتیں ہر جگہ ہورہی ہیں ،شاید ہی ہندوستان کا کوئی حصہ ہو جہاں برا سننے اور دیکھنے والے لوگ نہ پائے جاتے ہوں اور حیرانی والی بات یہ ہے کہ برا سننے اور دیکھنے والوں کی تعداد بہت بڑی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستان میں مسلمانوں کے رہنے کیلئے مہاتماگاندھی نے رکھی تھی چند شرطیں ، جانئے

ایوازارو: گاندھی جی کا یہ تیسرا بندر تھا۔ یہ بندر اپنے منہ کو بند کرکے رکھتا تھا تاکہ کچھ برا نہ بول پائے۔ کوئی بری بات زبان سے نکل نہ جائے اس کیلئے گاندھی جی کا یہ بندر اپنا منہ بند رکھتا تھااور گاندھی جی اس بندر کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہمیں بری باتیں نہیں بولنی چاہیے۔ لیکن آج یہ تیسرا بندر بھی مرچکا ہے اور اس کو مارا ہم ہندوستانیوں نے ہی ہے۔ آج ملک میں لاکھوں کی تعداد میں بندر ہیں ،پارلیمنٹ کے قریب سے  اسمبلیوں کے اردگرد تک، دہلی سے لیکر نوئیڈا تک اور کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک بندروں کی بڑی تعداد ہے لیکن ان بندروں میں وہ بندر نہیں ہے جو گاندھی جی کا تھا جو یہ پیغام عام کررہا تھا کہ ہمیں بری بات نہیں بولنی چاہیے ۔ جمہوریت کے مندرمیں ایک ممبر کی طرف سے دوسرے رکن کو گندی گالیاں دیتے  ہوئے دیکھ کر سینکروں کی تعداد میں سیاسی رہنماوں نے گاندھی جی کے پہلے بندر کو وہیں ماردیا ، اور دوسرے بندر کو انہیں لوگوں نے اسی پارلیمنٹ میں تب مار دیا جب وہ گالی دے رہا تھا اور باقی لوگ آرام سے سن رہے تھے ۔ حیرانی تب ہوئی اور تیسرا بندر تب مارا گیا جب  ایک عوامی نمائندہ اور ذمہ داری شخص نے پارلیمنٹ کے اندر اپنے ہی ساتھی کو ایسی ایسی گالیاں   دیں اور بری باتیں کہیں کہ تیسرا بند بھی خود بخود مرگیا۔ اب نہ باپو زندہ ہیں اور نہ باپو کے تینوں بندر اور جو کچھ چند خیالات ابھی باقی ہیں ،مستقبل قریب میں ان پر خطرات کے بادل منڈلانے کا اندیشہ ہے۔ اور انہیں اندیشوں کے بیچ آپ کو بھی گاندھی جیتنی کی مبارکباد۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts

Agreements signed with Kuwait: پی ایم مودی کے دورے کے دوران کویت کے ساتھ دفاع، ثقافت، کھیل سمیت کئی اہم شعبوں میں معاہدوں پرہوئے دستخط

ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…

1 hour ago

بھارت کو متحد کرنے کی پہل: ایم آر ایم نے بھاگوت کے پیغام کو قومی اتحاد کی بنیاد قرار دیا

مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور

2 hours ago