Bharat Express Urdu Conclave: کانگریس کے راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر سید ناصر حسین نے بھی بھارت ایکسپریس نیوز نیٹ ورک کی اردو ٹیم کے کنکلیو ’بزمِ صفات‘ میں اپنا تاثر پیش کیا۔ اس دوران انہوں نے ہسٹورین اور ڈسٹورین کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں صحیح اور غلط میں فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں جھوٹ پھیلانے والوں سے نمٹنا ہے۔
ڈاکٹر سید ناصر حسین نے کہا کہ اب ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں سازشیں، جھوٹ اور غلط باتیں پھیلانا عام ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہماری آنکھوں کے سامنے کیا کیا آتا رہتا ہے۔ میں کچھ دن پہلے ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا، جس میں کہا جا رہا تھا کہ شہروں کے نام بدلے جائیں گے، عمارتوں کے نام بدلے جائیں گے… ایسا ہی کچھ اور سننے کا آ رہا تھا۔ مطلب کہ اب کچھ نئے ہسٹورین آ رہے ہیں، جنہیں ہم ڈسٹورین کہتے ہیں۔
اس نے کہا، ’’پہلے ہسٹورین رہ تے تھے، آرکیولوجسٹ ہوتے تھے… یہ سب لوگ ہسٹری لکھتے تھے۔ آج کل ڈسٹورین آگئے ہیں… ان کا کام یہ ہے کہ جو پہلے لکھا گیا ہے اس کو غلط ثابت کرنا اور جھوٹ پھیلانا ہے۔‘‘
’خاتون پروفیسر نے اردو پر جھوٹ پھیلایا‘
ڈاکٹر سید ناصر حسین نے کہا کہ میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا، اس ویڈیو میں ایک خاتون پروفیسر کھڑی ہو کر لوگوں کو بڑی سنجیدگی سے سمجھا رہی تھیں کہ یہاں پہلے سنسکرت تھی، پالی زبان تھی… اس کے بعد ہندی برسوں تک چلتی رہی . اب چونکہ ہندی ایک برادری، ایک طبقے سے وابستہ تھی، اس لیے کچھ بادشاہ نے اپنے لوگوں سے کہا کہ ’یہاں کی جو زبان ہے وہ ایک برادری سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے ہمیں دوسری برادری کے لیے ایک اور زبان شروع کرنی چاہیے’۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ دنیا میں کونسی ایسی زبان ہے جس کے رہتے یہ طے کرنا پڑے کی ہم ایک نئی زبان شروع کرتے ہیں۔ یہ مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔
ناصر حسین کا مزید کہنا تھا کہ ’’لیکن خاتون پروفیسر ویڈیو میں کہتی ہے کہ ایک سازش کے تحت ہندی کو ختم کرنے کے لیے ایک نئی زبان لائی گئی-اردو ۔ خاتون کے مطابق یہ ہندوستانی ثقافت کو تباہ کرنے کی کوشش تھی۔ خاتون کی بات سن کر میں دنگ رہ گیا۔ چلو مان لیتے ہیں کہ اب ذہنیت ایسی ہو گئی ہے۔ ایسی ذہنیت سے ہمدردی رکھنے والے جو حکمراں ہیں… دہلی میں ہیں اور ہندوستان کی کئی ریاستوں میں بھی ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اردو کا کیا حال ہوگا۔ اردو کس طرح بورڈوں سے غائب ہو جائے گی، کیسے کاغذات سے غائب جائے گی، سرکاری دستاویزات سے کس طرح غائب جائے گی… ان کے ذہنوں میں کیا کیا باتیں ہیں، ہم سب سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
’’ہمیں اردو پر زیادہ زور دینے کی ضرورت‘‘
ناصر حسین نے کہا، ’’یہ جو سازشیں چل رہی ہیں، ان سے اردو کو بچایا کیسے جائے…ہمیں اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی زبان کمیونکیٹ آپس کرتی ہے، لکھنا اور پڑھنا الگ بات ہے، لیکن جب تک وہ کمیونکیٹ نہیں ہوتی ہے تو وہ زبان پھیلتی نہیں ہے۔ ہمیں اردو پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ وہ چاہے بول چال میں ہو، کتابوں میں ہو یا ‘‘کسی اور طریقے سے۔
’’اردو کے لیے موومینٹ چلے، لابنگ کی جائے‘‘
انہوں نے کہا، ’’ایک زمانے میں کرناٹک میں ہزاروں کی تعداد میں اردو سرکاری اسکول ہوا کرتے تھے۔ اب چونکہ اردو روزی روٹی سے وابستہ نہیں ہے۔ جیسے انگریزی ہے کہ اسے سیکھے بغیر نہ ملک میں اور نہ ہی ملک سے باہر نوکری ملے گی۔ اسی طرح اگر اردو کو روزی روٹی سے نہ جوڑا جائے تو یہ پھیل نہیں پائے گی۔ اسے کورسز کے ذریعے ہر گھر تک پہنچایا جائے۔ حکومت کے مختلف بورڈز میں اسے شامل کرنے کے لیے دباؤ بنایا جائے۔ میرے خیال میں اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ایک موومینٹ چلنا چاہیے۔ لوگوں کو اس کے لیے لابنگ کرنی چاہیے۔ جو لوگ اردو چاہتے ہیں انہیں آگے بڑھ چڑھ کے اس کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔
بھارت ایکسپریس۔
روپ وے پراجیکٹ پر وشنو دیوی سنگھرش سمیتی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تشکیل…
اپیندر رائے نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’’چیف…
ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…
وزیر اعظم نریندر مودی کا کویت کا دو روزہ دورہ ختم ہو گیا ہے اور…
مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور
بہار میں گرینڈ الائنس حکومت کے قیام کے بعد خواتین کو 2500 روپے ماہانہ دینے…