قومی

Minority Status to States Case: آبادی کی بنیاد پر اقلیتی درجہ دینے کا مطالبہ، جواب نہ دینے والے ریاستوں سے سپریم کورٹ ناراض، جانئے کیا ہے پورا معاملہ؟

ریاست میں عوامی آبادی کے لحاظ سے کسی مذہب کے لوگوں کو اقلیتوں کا درجہ دینے سے متعلق مطالبہ والی عرضی پر جمعہ کے روزسپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس دوران عدالت نے اب تک مرکزکواعدادوشماردستیاب نہیں کروانے والی ریاستوں پرناراضگی ظاہرکی ہے۔ عدالت نے ریاستوں کواعدادوشماردستیاب کرانے کے لئے 6 ہفتے کے وقت کا وقت دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگرریاستوں نے ایسا نہیں کیا توانہیں 10 ہزارروپئے کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ اس معاملے میں اب آئندہ سماعت اپریل میں ہوگی۔

دراصل، بی جے پی لیڈراور وکیل اشونی اپادھیائے نے عرضی داخل کرکے آبادی کے لحاظ سے اقلیتی درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ ہندو 9 ریاستوں میں آبادی کے لحاظ سے اقلیت ہیں، لیکن انہیں اس کا باضابطہ درجہ نہ ملنے کے سبب تعلیمی ادارے کھولنے اور چلانے کا حق نہیں ہے۔ نہ ہی کسی طرح کی سرکاری امداد ملتی ہے۔ عدالت نے مرکزسے کہا تھا کہ وہ ریاستوں سے ضروری اعدادوشمارلے کرجواب داخل کریں۔

مرکزنے عدالت کو بتایا کہ اسے اب تک 24 ریاستوں اورمرکزکے زیرانتظام 6 ریاستوں کا جواب مل چکا ہے، جبکہ اروناچل پردیش، جموں وکشمیر، جھارکھنڈ، لکشدیپ، راجستھان اور تلنگانہ نے اب تک جواب نہیں دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ان ریاستوں سے 2 ہفتے میں اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کے لئے کہا ہے۔

ہندوستان میں کل 8 ریاست ایسے ہیں، جن ریاستوں میں ہندو عوامی آبادی 50 فیصد سے بھی کم ہے۔ یعنی کہ ان ریاستوں میں ہندو ایک طرح سے اقلیتی زمرے میں ہیں۔ اسی کے سبب سال 2017 میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تھی۔ ان 8 ریاستوں میں جموں وکشمیر، پنجاب، لکشدیپ، میزورم، ناگالینڈ، میگھالیہ، اروناچل پردیش اور منی پور جیسی ریاستیں شامل تھیں۔

-بھارت ایکسپریس

Nisar Ahmad

Recent Posts