قومی

Congress to challenge Waqf Bill soon in SC: کانگریس جلد ہی سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی بل کو کرے گی چیلنج،کئی پارٹیاں اور تنظیمیں بھی کررہی ہیں تیاریاں

 انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی سپریم کورٹ میں وقف (ترمیمی) بل 2024 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرے گی۔ یہ بل حال ہی میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں، لوک سبھا اور راجیہ سبھا، سے منظور ہوا ہے، جس کے بعد اسے شدید تنقید کا سامنا ہے، خاص طور پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے۔ کانگریس کے جنرل سیکرٹری جے رام رمیش نے کہا کہ پارٹی اس بل کو آئین کے اصولوں، دفعات اور روایات پر حملہ سمجھتی ہے اور اس کے خلاف قانونی جنگ لڑے گی۔جے رام رمیش نے کہا کہ کانگریس نہ صرف وقف ترمیمی بل کو چیلنج کرے گی بلکہ وہ شہریت ترمیمی قانون، آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کی ترامیم، الیکشن رولز 2024، اور ورشپ ایکٹ کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں اپنی لڑائی جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی مودی حکومت کے ان تمام اقدامات کے خلاف مزاحمت کرے گی جو آئین کے بنیادی اصولوں پر حملہ کرتے ہیں۔

وقف ترمیمی بل 2024 کی منظوری

وقف (ترمیمی) بل 2024 کو لوک سبھا نے 2 اپریل کی رات 12 گھنٹے سے زائد کی طویل بحث کے بعد منظور کیا تھا، جبکہ راجیہ سبھا نے اسے 4 اپریل کی صبح 128 ووٹوں کے مقابلے 95 ووٹوں سے پاس کیا۔ اس بل کی منظوری کو وزیراعظم نریندر مودی نے “سماجی-اقتصادی انصاف، شفافیت اور جامع ترقی کے لیے ہماری اجتماعی جدوجہد میں ایک سنگ میل” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل وقف نظام میں دہائیوں سے چلی آ رہی عدم شفافیت اور جوابدہی کی کمی کو دور کرے گا، جو خاص طور پر مسلم خواتین، غریب مسلمانوں اور پسماندہ مسلم طبقات کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا تھا۔تاہم، اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بل آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کا مقصد مسلم کمیونٹی کے مذہبی حقوق کو کمزور کرنا ہے۔

بل کے اہم نکات

وقف (ترمیمی) بل 2024 میں کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

غیر مسلم اراکین کی شمولیت: بل کے تحت وقف کونسل میں چار غیر مسلم اراکین، جن میں دو خواتین شامل ہوں گی، کی شمولیت لازمی قرار دی گئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے نمائندگی اور شمولیت میں اضافہ ہوگا، لیکن اپوزیشن اسے مذہبی خودمختاری پر حملہ قرار دے رہی ہے۔

جائیدادوں کی درجہ بندی کا اختیار: بل کے مطابق، ضلعی کلکٹروں سے اوپر کے سینئر افسران کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ فیصلہ کریں کہ کوئی جائیداد وقف کی ہے یا سرکاری ملکیت ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ اختیار وقف بورڈز کی خودمختاری کو ختم کرتا ہے۔

وقف اداروں کے فنڈز میں کمی: بل کے تحت وقف اداروں کی طرف سے وقف بورڈز کو لازمی شراکت کو 7 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ایک لاکھ روپے سے زیادہ کمانے والے وقف اداروں کا آڈٹ ریاستی سرپرستی میں آڈیٹرز کے ذریعے کیا جائے گا۔

شفافیت اور ڈیجیٹلائزیشن: بل کا مقصد وقف جائیدادوں کے انتظام کو بہتر بنانا، شفافیت بڑھانا، اور ایک مرکزی پورٹل کے ذریعے جائیدادوں کے انتظام کو خودکار بنانا ہے۔

اپوزیشن کے تحفظات

کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کو “مسلم مخالف” قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ اگر یہ بل چیلنج کیا گیا تو عدلیہ اسے “غیر آئینی” قرار دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنی اکثریت کا غلط استعمال کیا اور اس بل کو مسلط کر دیا۔راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریس صدر ملیکارجن کھرگے نے بی جے پی پر الزام لگایا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو فروغ دیتا ہے اور اس کا مقصد مسلم کمیونٹی کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔سی پی آئی (ایم) کی رہنما برندا کرات نے بھی اس بل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بی جے پی “اسلام کے ماننے والوں کے خلاف بلڈوزر استعمال کر رہی ہے اور ان کے آئینی حقوق چھین رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کسی ادارے کے کام میں مسائل ہیں تو اصلاحات کے راستے موجود ہیں، لیکن اس بل کے ذریعے حکومت اپنی اکثریت کا غلط استعمال کر رہی ہے۔

دوسری جماعتوں کا ردعمل

تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اس بل کو “آئین پر حملہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت ڈی ایم کے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل آئینی اقدار اور سیکولرزم کو کمزور کرتا ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رہنما امتیاز جلیل نے کہا کہ وہ اس بل کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں گے اور سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کریں گے، لیکن انہیں سپریم کورٹ سے زیادہ امید نہیں ہے۔

بی جے ڈی اور وائی ایس آر سی پی نے راجیہ سبھا میں اس بل کی مخالفت کی، لیکن انہوں نے اپنے اراکین کو ووٹنگ کے لیے کوئی پارٹی وِپ جاری نہیں کیا، جس سے اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑیں نظر آئیں۔

جموں و کشمیر کے گرینڈ مفتی مفتی ناصر الاسلام نے کہا کہ یہ بل مسلمانوں کے خلاف ہے اور اس سے کمیونٹی میں افراتفری پھیل گئی ہے۔ انہوں نے بھی سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا۔

حکومت کا موقف

دوسری جانب، حکومت نے اس بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلم کمیونٹی کے مذہبی آزادی میں مداخلت نہیں کرتا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں بحث کے دوران مسلم کمیونٹی کو یقین دلایا کہ یہ بل ان کے مذہبی عمل میں مداخلت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کا مقصد وقف جائیدادوں کے غلط استعمال کو روکنا ہے، جن میں دہلی کے لٹینز زون کی جائیدادیں، تمل ناڈو میں 400 سال پرانا مندر، اور پرانا پارلیمنٹ ہاؤس بھی شامل ہیں، جنہیں وقف بورڈ نے اپنی ملکیت قرار دیا تھا۔وزیر اقلیتی امور کیرن رجیجو نے کہا کہ اس بل سے وقف بورڈز میں تمام مسلم فرقوں اور خواتین کی نمائندگی ہوگی، جو اسے زیادہ جامع بنائے گی۔ انہوں نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ وہ اس بل کے ذریعے مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کر رہی ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts

How PM Modi’s Vision Is Propelling India: پی ایم مودی کے وژن سے گلوبل بگ لیگ آف ڈیفنس، اسپیس اینڈ ٹیک میں ہندوستان بڑھ رہا ہے آگے

ایک تاریخی پیش رفت میں، ہندوستان نے لیزر پر مبنی ڈائریکٹڈ انرجی ویپن سسٹم کا…

28 minutes ago

Govt to give bulk of ₹10,000 cr startup fund to AI: حکومت 10,000 کروڑ کے اسٹارٹ اپ فنڈ کا بڑا حصہ مصنوعی ذہانت اور ٹیک سیکٹرز کو دے گی: آفیشل

حکومت کی اہلیت کی شرائط کے مطابق، محکمے کے ذریعہ اسٹارٹ اپ انڈیا پہل کے…

55 minutes ago

High-end home sales jump: جنوری تا مارچ سہ ماہی میں اعلیٰ درجے کے گھروں کی فروخت میں ہوا 28 فیصد کا اضافہ

کنسلٹنٹ کا خیال ہے کہ ہندوستان کی رہائشی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں 2025 میں مستحکم…

1 hour ago