قومی

Lok Sabha Election 2024: مایاوتی کے سیاسی قدم سے سماجوادی پارٹی-کانگریس الائنس کا بگڑ سکتا ہے کھیل؟ وجہ جان کر رہ جائیں گے حیران

بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے بغیرالائنس کے اکیلے ہی سیاسی میدان میں اترنے کے اعلان کے بعد اب اپنے پتے کھولنے شروع کردیئے ہیں۔ یوپی کی چارلوک سبھا سیٹوں پربی ایس پی نے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔ مایاوتی کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پرمختلف طرح کے ردعمل بھی آنے لگے ہیں اورسوال بھی اٹھایا جانے لگا ہے۔ دراصل، بی ایس پی نے چاروں سیٹ پرمسلم امیدواراتارے ہیں۔ مراد آبادے سے عرفان سیفی، امروہہ سے ڈاکٹر مجاہد حسین عرف بابو بھائی، پیلی بھیت سے انیس احمد خان اورقنوج سے عقیل احمد خان کو بی ایس پی نے امیدواربنایا ہے۔ مایاوتی نے جس طرح سے اپنی پہلی ہی فہرست میں مسلم چہروں پرداؤں کھیلا ہے، اس سے بی جے پی کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں تو سماجوادی پارٹی-کانگریس الائنس کی تشویش بڑھ گئی ہے۔

بی ایس پی نے 2019 میں یوپی میں 10 لوک سبھا سیٹیں جیتنے میں کامیابی رہی ہے، لیکن 2022 میں اکیلے اسمبلی الیکشن لڑنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے کہ ایک سیٹ سے اکتفا کرنا پڑا ہے۔ اس کے باوجود بی ایس پی 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں اکیلے قسمت آزمانے اتری ہے جبکہ بی جے پی نے آرایل ڈی، نشاد پارٹی، سہیل دیوسماج پارٹی اوراپنا دل (ایس) سے الائنس کر رکھا ہے توسماجوادی پارٹی نے کانگریس کے ساتھ الائنس کیا ہے۔ بی جے پی اورسماجوادی پارٹی کے بعد بی ایس پی نے اپنے امیدواروں کے نام کا اعلان شروع کردیا ہے اورپہلی فہرست میں چارسیٹوں پرامیدوار اتاردیا ہے۔ ان چاروں ہی سیٹ پرمسلم امیدوارکواتارا ہے۔

بی ایس پی کا مسلم امیدواراتارنے کا پلان

لوک سبھا الیکشن 2024 میں بی ایس پی کی پہلی فہرست سے حکمت عملی صاف نظرآرہی ہے۔ مرادآباد، امروہہ، قنوج اورپیلی بھیت کے بعد بی ایس پی نے سنبھل، میرٹھ، علی گڑھ، سہارنپور، مظفرنگر، بدایوں، لکھیم پورکھیری، اعظم گڑھ، سنت کبیرنگر، امبیڈکرنگر، جونپور، کیرانہ، سلطانپوراورقیصرگنج لوک سبھا سیٹ پرمسلم امیدواراتارنے کا پلان بنایا ہے۔ بی ایس پی کے ایک سینئرلیڈرکے مطابق، مایاوتی نے یوپی کی ڈیڑھ درجن لوک سبھا سیٹوں پرمسلم امیدواروں کواتارنے کا پلان بنایا گیا ہے۔ حالانکہ اس لیڈر نے اپنا نام عام کرنے کی اجازت نہیں دی۔ بی ایس پی جن لوک سبھا سیٹ پر مسلم طبقے کے لیڈر پرداؤں کھیل رہی ہے، ان سیٹوں پرمسلم ووٹ بینک کی تعداد دیکھیں تو 25 فیصد سے 50 فیصد کے قریب ہیں۔ کانگریس کو یوپی میں 17 لوک سبھا سیٹیں ملی ہیں، جس میں دو سیٹ پرہی مسلم امیدوارکو ٹکٹ دینے کا امکان ہے۔ یہ دونوں سیٹیں سہارنپوراورامروہہ ہیں۔ سماجوادی پارٹی نے 31 لوک سبھا سیٹوں پرامیدواروں کا اعلان کیا ہے، جس میں تین سیٹ پرہی مسلم امیدوار بنایا گیا ہے۔ سنبھل ، کیرانہ اورغازی پور۔ جس میں سے سنبھل کے امیدواراور رکن پارلیمنٹ ڈاکٹرشفیق الرحمٰن برق کا انتقال ہوچکا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادواب ان کی جگہ پران کے بیٹے یا ان کے پوتے کوامیدواربناسکتے ہیں۔ یوپی میں سماجوادی پارٹی 63 لوک سبھا الیکشن لڑے گی، جس میں سے محض 6 سیٹ پرہی مسلم کوامیدواربنائے جانے کا امکان ہے۔ ایسے میں بی ایس پی نے جس طرح سے مسلم کارڈ کھیلنا شروع کیا ہے، اس سے کانگریس اورسماجوادی پارٹی الائنس کے سیاسی کھیل بگڑنے کا خطرہ بن رہا ہے۔ مسلم رائے دہندگان کے سیاسی رجحان سے یوپی کی مسلم اکثریتی سیٹوں پرہارجیت طے کرے گا۔ حالانکہ مسلم بنام مسلم امیدوارکے درمیان مقابلہ سے بی جے پی کے حوصلے بلند ہوتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔

اکھلیش یادو کی پریشانی میں اضافہ

اکھلیش یادو کے قنوج اوراعظم گڑھ دونوں لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑنے کا امکان ہے۔ سماجوادی پارٹی نے اس کی تیاری بھی شروع کردی ہے توبی ایس پی انہیں گھیرنے کی حکمت عملی بنا رہی ہے۔ اسی کے تحت مایاوتی نے قنوج سیٹ سے عقیل احمد پٹہ کو امیدواربنایا ہے۔ اعظم گڑھ سیٹ سے الیکشن لڑ چکے شاہ عالم عرف گڈوجمالی کے سماجوادی پارٹی میں جانے کے بعد اب بی ایس پی نے قمرظفراورمولانا عامررشادی کے بیٹے حذیفہ رشادی کو انتخابی میدان میں اتارسکتی ہے۔ بی ایس پی کے مسلم امیدواراتارنے سے اکھلیش یادو کے لئے دونوں ہی لوک سبھا سیٹ پرچیلنج بڑھ سکتا ہے۔ اعظم گڑھ لوک سبھا ضمنی الیکشن میں بی ایس پی کے مسلم داؤں سے سماجوادی پارٹی کے دھرمیندریادو کوہارکا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ اسی لئے اکھلیش یادو نے گڈو جمالی کو پارٹی میں لینے کے ساتھ ساتھ ایم ایل سی بنانے کا بھی قدم اٹھایا ہے۔ اعظم گڑھ اورقنوج دونوں ہی لوک سبھا سیٹ پرمسلم رائے دہندگان 20 فیصد سے زیادہ ہیں۔ مسلمانوں کو سماجوادی پارٹی کا مضبوط ووٹ بینک مانا جاتا ہے، لیکن بی ایس پی کے مسلم امیدواراتارنے سے کیا مسلم ووٹ سماجوادی پارٹی کے ساتھ مضبوطی سے جڑا رہے گا یا پھرسیندھ ماری کا خطرہ ہے۔

2019 میں بی ایس پی نے جیتی تھی 10 سیٹ

دراصل، 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں بی ایس پی نے سماجوادی پارٹی اورآرایل ڈی کے ساتھ مل کرالیکشن لڑا تھا۔ بی ایس پی 10 سیٹیں جیتی تھی، یہ سیٹیں مسلم-دلت اکثریتی سیٹیں تھیں۔ بی ایس پی 2024 کے الیکشن میں اسی دلت-مسلم فارمولے پرپھرسے انتخابی میدان میں اتری ہے، لیکن اس باراکیلے الیکشن لڑرہی ہے۔  یوپی میں جس طرح سے بی جے پی الائنس بنام انڈیا الائنس کے درمیان الیکشن سمٹتا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے بی ایس پی دلت-مسلم حکمت عملی کی بدولت اپنی سیاسی زمین  تلاش رہی ہے۔ بی ایس پی نے اسی فارمولے پراپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی شروع کردیا ہے۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی کی نظر یوپی کی ڈیڑھ درجن اکثریتی لوک سبھا سیٹوں پرہے، جس میں سات سیٹیں بی ایس پی نے جیتی تھیں اورچارسیٹ پر سماجوادی پارٹی کوکامیابی ملی تھی۔ بجنورسے ملوک ناگر، امروہہ سے کنوردانش علی، سہارنپورسے حاجی فضل الرحمٰن، غازی پورسے افضال انصاری، جونپورسے شیام یادو، نگینہ سے گریش چندراورشراوستی سے رام شرومنی ورما بی ایس پی سے جیتے تھے۔ مرادآباد سیٹ سے ایس ٹی حسن، سنبھل سے شفیق الرحمٰن برق، اعظم گڑھ سے اکھلیش یادو اوررام پورسے اعظم خان سماجوادی پارٹی سے جیتے تھے۔ سماجوادی پارٹی نے پانچویں سیٹ مین پوری جیتی تھی۔

کیا ہے بی ایس پی کی پلاننگ

بی ایس پی نے 2019 کے فارمولے سے مسلم اکثریتی سیٹوں پرمسلم امیدواروں پرداؤں کھیلنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ پارٹی کے روایتی دلت ووٹوں کے ساتھ مل کرجیتنے کی حکمت عملی تیارکی جاسکے۔ بی ایس پی کی اس حکمت عملی کا مسلم اکثریتی لوک سبھا سیٹوں پرسماجوادی پارٹی اورکانگریس کے لئے سیاسی چیلنج میں اضافہ کردیا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ مسلم اکثریتی سیٹوں پربی ایس پی کے مسلم امیدواراترنے سے سماجوادی پارٹی-کانگریس الائنس کو نقصان ہوسکتا ہے۔ مسلم ووٹوں کی تقسیم کا امکان بھی بن سکتا ہے۔ اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی امیدواروں کو مل سکتا ہے۔ 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں بی ایس پی بھلے ہی ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی ہو، لیکن اس نے سماجوادی پارٹی کو تقریباً دو درجن سیٹوں پرنقصان پہنچانے کا کام کیا تھا۔ یوپی کی سبھی مسلم اکثریتی سیٹوں پربی جے پی نے جیت درج کی تھی اورایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکا تھا۔ یوپی میں 20 فیصد مسلمان ہیں، جو دو درجن لوک سبھا سیٹوں پرکسی بھی پارٹی کا کھیل بنانے اوربگاڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یوپی میں 18 لوک سبھا سیٹیں ایسی ہیں، جہاں مسلم اوردلت ووٹ مل کر50 فیصد کی آبادی ہے۔ دیکھنا ہے کہ بی ایس پی کا یہ داؤں کتنا کارگررہتا ہے؟ لیکن یہ سوشل میڈیا کے علاوہ کانگریس اورسماجوادی پارٹی نے بی ایس پی پر بی جے پی سے ملی بھگت ہونے کا الزام لگانا شروع کردیا ہے۔

 بھارت ایکسپریس۔

Nisar Ahmad

Recent Posts

Dallewal Fasting For 28 Days:بھوک ہڑتال پر28دنوں سے بیٹھے بزرگ کسان رہنما جگجیت سنگھ ڈلیوال کی جان کو خطرہ، پڑ سکتا ہے دل کا دورہ

ڈلیوال کا معائنہ کرنے والے ایک ڈاکٹر نے صحافیوں کو بتایاکہ ان کے ہاتھ پاؤں…

1 hour ago

A speeding dumper ran over 9 people:نشے میں دھت ڈمپر ڈرائیور نے فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے 9 افراد کو کچل دیا، 3 مزدوروں کی موقع پر موت

حادثے کے فوری بعد پولیس نے ڈمپر ڈرائیور کو گرفتار کر لیاہے۔ پولیس کے مطابق…

2 hours ago