قومی

Aligarh Muslim University Minority Status: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار مرکز کی مودی حکومت کو منظور نہیں، جانئے پوری تفصیل

مرکزکی مودی حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی ’قومی نوعیت‘ کو دیکھتے ہوئے یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہوسکتا۔ عدالت عظمیٰ میں اے ایم یو کے اقلیتی درجے کے سوال سے متعلق سماعت کی جا رہی ہے۔ ہندوستان ٹائمس کے مطابق، عدالت عظمیٰ کے سامنے داخل اپنی تحریری دلیل میں سالسٹرجنرل تشارمہتا نے کہا کہ یونیورسٹی ہمیشہ سے ’قومی نوعیت‘ کا ادارہ رہی ہے، یہاں تک کہ آزادی کے پہلے بھی۔ یونیورسٹی کا قیام 1875 میں عمل میں آیا تھا۔

دستاویزمیں کہا گیا ہے، ’اس لئے بھارت سرکارکے مطابق، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک قومی نوعیت کا ادارہ ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسی کے قیام سے متعلق دستاویزوں کا ای  سروے اور یہاں تک کہ اس وقت کی موجودہ قانون سازی کی صورت حال سے پتہ چلتا ہے کہ اے ایم یوہمیشہ سے قومی نوعیت کا ادارہ تھا۔‘ دستورسازاسمبلی میں ہونے والی بحث کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، یہ واضح ہے کہ یہ یونیورسٹی تھی اورواضح طورپرقومی اہمیت کا ادارہ تھا اورہے، اسےغیراقلیتی یونیورسٹی ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ قوم اورآئین کی واضح طورپر سیکولر فطرت اورمزاج کی وجہ سے، اس حقیقت پرغورکرتے ہوئے کہ اے ایم یو’قومی کردار’ کا ادارہ ہے، اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جا سکتا، بھلے یہ سوال بنا رہے کہ یہ ادارہ قیام کے وقت اقلیتوں کے ذریعہ قائم کیا گیا تھا یا اس کے زیرانتظام تھا یا نہیں۔سالسٹرجنرل تشارمہتا نے کہا کہ اے ایم یوایک مسلم یونیورسٹی کے طورپرکام کرنے والی یونیورسٹی نہیں ہے کیونکہ یہ اقلیتوں کے ذریعہ قائم اورزیرانتظام نہیں ہے۔

سالسٹرجنرل نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کسی خاص مذہب یا مذہبی فرقے کی یونیورسٹی نہیں ہے اورنہ ہوسکتی ہے کیونکہ کوئی بھی یونیورسٹی جسے آئین ہند کے ذریعہ قومی نوعیت کا حامل قراردیا گیا ہے، لہٰذا یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہوسکتا۔ اے ایم یوکو’اقلیتی ادارہ’ قراردینے کے اثرات پر، انہوں نے کہا کہ اقلیتی تعلیمی ادارے کومرکزی تعلیمی اداروں (داخلوں میں ریزرویشن) ایکٹ-2006 (2012 میں ترمیم شدہ) کے سیکشن 3 کے تحت ریزرویشن پالیسی نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

کیا ہے اقلیتی کردارکا معاملہ

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردارکا معاملہ گزشتہ کئی دہائیوں سے قانونی معاملے میں پھنسا ہوا ہے۔ ہندوستان ٹائمس کے مطابق، 1967 میں ایس عزیزباشا بنام بھارت سنگھ معاملے میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے کہا تھا کہ چونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک سینٹرل یونیورسٹی ہے، اس لئے اسے اقلیتی ادارہ نہیں تسلیم کیا جاسکتا۔ حالانکہ 1875 میں قائم اس یونیورسٹی کواپنا اقلیتی درجہ تب واپس مل گیا، جب پارلیمنٹ نے 1981 میں اے ایم یو(ترمیم) ایکٹ منظورکیا۔ جنوری 2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 1981 کے قانون کے اس التزام کو منسوخ کردیا، جس کے ذریعہ یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دیا گیا تھا۔ تب مرکزمیں کانگریس کی قیادت والی اس وقت کی یوپی اے حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل دائر کی۔ یونیورسٹی نے بھی اس کے خلاف الگ سے عرضی داخل کی تھی۔ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے 2016 میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ وہ سابقہ یوپی اے حکومت کے ذریعہ داخل اپیل واپس لے گی۔ اس نے ایس عزیز باشا معاملے میں عدالت عظمیٰ کے 1967 کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اے ایم یواقلیتی ادارہ نہیں ہے کیونکہ یہ ایک سینٹرل یونیورسٹی ہے، جسے حکومت کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ اب اسی معاملے پرچیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑکی صدارت والی 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کررہی ہے۔

-بھارت ایکسپریس

Nisar Ahmad

Recent Posts

AUS vs IND: گواسکر  نے کہا روہت شرما کو  کپتانی سے ہٹائیں صرف کھلاڑی کے طور پر ٹیم میں شامل کریں

سنیل گواسکر نے کہا ہے کہ اگر روہت شرما آسٹریلیا کے خلاف پہلا ٹیسٹ نہیں…

19 mins ago

Supreme Court: حکومت ہر نجی جائیداد پر قبضہ نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے معاشی ڈھانچے (نظام)میں نجی شعبے کی اہمیت ہے۔…

2 hours ago