مُدّعے کی پَرَکھ

Rahul Gandhi vs Gautam Adani: گوتم اڈانی پر راہل گاندھی کے الزامات کا فیکٹ چیک

موجودہ دور میں ایڈیٹروں کے پاس ایک بڑی ذمہ داری فیکٹ چیکنگ کا بھی ہے۔ کیونکہ آج کے وقت میں جب غلط اطلاعات کا سیلاب  ہے۔ اس لئے آج کل ایڈیٹروں کا کام حقائق کی جانچ (Fact Check) کرنا بھی ہے۔ یہی ادارتی ایجنڈا سیٹ کرنے کا مطلب ہے نیریٹیو کی جانچ کرنا اور تصورات سے حقائق کو الگ کرنا۔ میں بھی اس ادارت کے ذریعہ ٹھیک ایسا ہی کام کرنے جا رہا ہوں۔

راہل گاندھی کی سیاسی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ رافیل (انل امبانی) اور گوتم اڈانی فیز۔ راہل کے رافیل فیز پر کافی کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ اس وقت راہل گاندھی کو اپنے جھوٹ کے لئے سپریم کورٹ میں بلاشرط معافی مانگنی پڑی تھی۔ ان کا موجودہ ‘گوتم اڈانی فیز’ فی الحال ابھی شکل اختیار کررہا ہے، لیکن یہاں ان کے الزامات کے خلاف یہ میری چھوٹی سی ‘سرجیکل اسٹرائیک’ ہے۔

الزام: مودی حکومت میں اڈانی کی جائیداد میں زبردست اضافہ

فیکٹ: یوپی اے کے دوراقتدار میں اڈانی کا کاروبار 2 کروڑ سے بڑھ کر 87,000  کروڑ روپئے ہوگیا۔

الزام: مودی نے غیرملکی کنٹریکٹ حاصل کرنے میں اڈانی کی مدد کی۔

فیکٹ: مودی نے غیرملکی کانٹریکٹ 2008 میں انڈونیشیا میں  ملا تھا۔ انہیں 2010 میں آسٹریلیا میں اپنی پہلی مائن ملی تھی اور انہوں نے 2011 میں آسٹریلیا میں اپنا بندرگاہ قائم کیا تھا۔

الزام: ایس بی آئی اور ایل آئی سی نے اڈانی گروپ کا فیور کیا۔

فیکٹ: ایس بی آئی اور ایل آئی سی کا ایکسپوزر ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اڈانی نے ایک بھی لون ادا کرنے میں تاخیر نہیں کی کی ہے۔  ایل آئی سی نے اپنے اڈانی کی سرمایہ کاری پر زبردست منافع کمایا ہے۔

الزام: مودی نے اڈانی کو 6 ہوائی اڈے دیئے۔

فیکٹ: اڈانی نے بڈنگ عمل کے ذریعہ سبھی ہوائی اڈوں (ایئرپورٹ) سے معاہدے حاصل کئے۔ انہوں نے دوسری سب سے بڑی بولی لگانے والے سے کئی گنا زیادہ کی بولی لگائی۔ اڈانی کے ہوائی اڈوں سے حکومت کو زیادہ آمدنی حاصل ہوئی ہے۔

راہل گاندھی کے ذریعہ اڈانی سے متعلق غلط پالیسیوں کی فہرست لمبی ہے کہ اس کے لئے ایک چھوٹے اداریے کے بجائے ایک کتاب لکھنی پڑسکتی ہے۔ گوتم اڈانی پر گلوبل ہنگرانڈیکس میں بھارت کی گراوٹ اور لیبر سوسائڈ ریٹس میں اضافہ کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔

راہل کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اڈانی گزشتہ ایک دہائی سے غذائی قلت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ اڈانی فاؤنڈیشن اپنے اہم پروجیکٹ غذائیت کے ذریعہ 5-0 سال کی آمدنی کے بچوں، لڑکیوں، حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی ماؤں میں غذا اور اینیمیا کی پریشانیوں کو دور کرنے کا کام کرتا رہا ہے۔ غذائی پروجیکٹ ملک بھر میں 1,026  گاؤں اورمیونسپلٹی (بلدیہ) وارڈوں میں چل رہا ہے اور اس کے ذریعہ 2,39,211  اہل خانہ کو خدمات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس پروجیکٹ نے 35,000  سے زیادہ غذائیت کا شکار بچوں کو بچانے کا کام کیا ہے۔ اڈانی فاؤنڈیشن کی مداخلت کے بعد یہ بچے اب صحت مند حالت میں ہیں۔

لیکن یہ الگ بحث ہے۔ ہم اڈانی پر راست طور پر لگائے گئے مزید الزامات پر بات کرتے ہیں۔ اڈانی کے 6 ایئرپورٹوں کی بولی جیتنے کے پیچھے کا سچ کیا ہے؟

بولی کا عمل مسابقتی اور شفاف طریقے سے منعقد کیا گیا تھا، جس میں 6 ایئرپورٹ کے لئے 10 مختلف اداروں نے 32 بولیاں لگائی تھیں۔ ٹینڈر ان کمپنیوں کو فراہم کئے گئے جن کا ‘فی مسافر فیس’ زیادہ ت ھا اور یہ سبھی 6 ایئر پورٹوں میں اڈانی انٹرپرائزز کا سب سے زیادہ تھا۔

تروننت پورم ایئرپورٹ کے معاملے میں، اڈانی نے فی مسافر 168 روپئے کی بولی لگائی۔ جبکہ کے ایس آئی ڈی سی نے 135 روپئے اور جی ایم آر ایئر پورٹ نے فی مسافر 63 روپئے کی بولی لگائی۔ کیا راہل گاندھی بتا سکتے ہیں کہ حکومت کو ٹینڈر جی ایم آر کو دینا چاہئے تاھ؟ اگر ایسا ہوتا، تو وہ کرونی کیپٹل ازم ہوتا۔

احمدآباد ایئرپورٹ کے لئے جی ایم آر کی بولی 85 روپئے، اے ایم پی کیپٹل کی بولی 127 روپئے، جیورخ ایئرپورٹ کی بولی 146 روپئے اور اڈانی کی بولی 177 روپئے تھی۔ کیا حکومت کو جیورخ ایئرپورٹ کو ٹینڈر دینا چاہئے اور کم ریوینیو سے سمجھوتہ کرنا چاہئے؟ اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو وہ کرونی کیپٹل ازم ہوتا۔

ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اڈانی نے اپنی تجارت کو شفاف، مسابقتی بولی کے دورمیں داخل کیا ہے۔ ان کانگریس کو کرونیوں کے مخالف، جو ملک کے وسائل کے منمانی اور’پہلے آؤ-پہلے پاؤ’ کے الاٹمنٹ کے یوپی اے اقتدار کے دورے پھلے پھولے۔

اڈانی نے گرین اینرجی، ایئرپورٹوں، سٹی گیس ڈسٹری بیوشن اورٹرانسمیشن لائن کے لئے نیلامی میں کنٹریکٹ حاصل کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے سستی بجلی-گیس اور حکومت کے لئے زیادہ ریوینیو۔ کانگریس کے اقتدار کے دوران یہ الٹا تھا۔ حکومت اور عوام کو نقصان اور ساتھیوں کو منافع۔

اڈانی کا یہ سفرلبرلائزیشن کے بعد کے دور میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا سفر ہے۔ یہ کانگریس حکومت (پہلے راجیو گاندھی، پھرنرسمہا راؤ اورآخرمیں منموہن سنگھ کی اقتصادی پالیسیاں ہیں، جس نے اڈانی کو ایک بہت بڑا انفرا بزنس گروپ قائم کرنے کے قابل بنایا۔

 ہنڈن برگ رپورٹ میں اٹھائے گئے کچھ سوالوں پر ریگولیٹری رسپانس کی ضرورت ہے۔ سیبی اور دیگر SEBI اور دیگر حکام کو کارپوریٹ گورننس، کارپوریٹ ہولڈنگز میں شفافیت اور   شیئر ہولڈروں کو کارپوریٹ گورننس، کارپوریٹ ہولڈنگس میں شفاریت اور نقلی شیئر ہولڈروں کی سرمایہ کاری کے تحفظ کے سوالوں کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ان سنجیدہ سوالوں کو سیاسی کیچڑ اچھالنے کی قواعد تک محدود کرنا ہمارے ملک کا نقصان کر رہا ہے۔

-بھارت ایکسپریس

Upendrra Rai, CMD / Editor in Chief, Bharat Express

Recent Posts

Maharashtra Election 2024:نواب ملک کی بیٹی ثنا ملک کے خلاف شنڈے خیمہ نے اتارا تھا اپنا امیدوار،اب آئی یہ بڑی خبر

اسمبلی انتخابات کے لیے کل 10 ہزار 900 امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کیے تھے۔…

54 mins ago

Jamaat-e-Islami Hind Delegation met with JPC: وقف (ترمیمی) بل 2024 پر جماعت اسلامی ہند کے وفد نے جے پی سی سے کی ملاقات

جماعت اسلامی ہند کے مرکزی وفد نے نائب صدر ملک معتصم خان کی قیادت میں…

1 hour ago

Yuva Chetna: یووا چیتنا ’گورکشا آندولن‘میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں 7 نومبر کو پیش کرے گی خراج تحسین

یووا چیتنا کے ذریعہ 7 نومبر 1966 کو ’گورکشا آندولن‘میں ہلاک ہونے والے گائے کے…

3 hours ago

MCD Mayor Election: دہلی کے میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کی تاریخ کا اعلان، جانئے کب ہوگی ووٹنگ؟

ایم سی ڈی کے میئر کے عہدہ کا انتخاب گزشتہ چھ ماہ سے زیر التوا…

3 hours ago