ہریانہ کے نوح میں تشدد کا سانپ گزر گیا ہے اور اب قصورواروں کی تلاش کی لکیر پیٹنے کا کام چل رہا ہے۔ سوموار کو فرقہ وارانہ جھڑپیں شروع ہونے کے بعد سے 250 سےزیادہ حملہ آور گرفتار یا احتیاطاً حراست میں لئے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ ،پانچ اضلاع میں 93 ایف آئی آر بھی درج ہوئی ہیں ۔ مارے گئے چھ لوگوں میں دو ہوم گارڈ کے جوان شامل ہیں ۔ جن کا کام فسادات اورتشدد کو کنٹرول کرنے میں پولیس کا تعاون کرنے کا ہے، لیکن جب تشدد ہوا تو ہوم گارڈ اور پولیس والے خود کو بچانے میں ہی لاچار دکھائی دئے۔تشدد کی آگ ملک کی راجدھانی دہلی سے ملحقہ گروگرام تک بھی پہنچی ہے۔ جہاں جھڑپیں پھیلنے کے بعد کرفیو لگانا پڑا۔ انٹرنیٹ کی خدمات عارضی طور پر معطل کردی گئی اور ہزاروں پیراملٹری فورسز کے جوانوں کو تعینات کردیا گیا۔ وہاں ایک مسجد میں آگ لگادی گئی اور تشدد میں 19 سال کے ایک نوجوان امام کی موت ہوگئی۔ کئی دوکانوں اور چھوٹے ریسٹورنٹوں میں توڑ پھوڑ کی گئی یا آگ لگادی گئی ۔ جمعرات کو ہریانہ میں پھر سے تشدد بھڑکنے کے بعد نوح میں اب ایک آئی آر بی بٹالین تعینات کردی گئی ہے اور میوات میں جلد ہی ایک آر اے ایف مرکز قائم کئے جانے کی بات ہورہی ہے۔
یہ سب آگ لگنے کے بعد کنواں کھودنے جیسا ہے ۔ کیوں کہ نوح میں جو ہوا وہ غیر متوقع نہیں ہے۔ خود ریاستی سرکار ہی کہہ رہی ہے کہ جس سطح پر اور جس طرح الگ الگ مقامات پر تشدد ہوئے، جس طرح گھر کی چھتوں پر پتھر جمع کئے گئے ، ہتھیار دکھائے گئے ، گولیاں چلائی گئی ، اس سے نہیں لگتا کہ یہ سب اچانک ہوا ہے۔ ہریانہ حکومت کو اس سب کے پیچھے سوچی سمجھی سازش دکھائی دے رہی ہے، لیکن اس سوال کا جواب نہیں مل رہا ہے کہ ان سب کے بیچ اس کا انٹیلی جنس سسٹم کیا کررہا تھا ؟ ایسی تصویریں بھی ہیں جن میں برج منڈل جلا بھیشیک یاترا میں شامل لوگ بھی کھلے عام تلوار اور بندوق لہراتے نظرآرہے ہیں ۔ تو کیا پولیس اور انتظامیہ انہیں دیکھ نہیں پائی یا اس نے دیکھ کر بھی اس کو نظرانداز کردیا؟
سوالوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ ہریانہ سرکار گن رہی ہے کہ کیسے ریاست کی آبادی 2.7 کروڑ ہے اور اس کے پاس صرف 60 ہزار جوان ہیں ،یعنی ہر 450 کی آبادی پر ایک پولیس اہلکار اور ایسے میں پولیس ہر فرد کا تحفظ نہیں کرسکتی ہے۔انڈیا جسٹس رپورٹ کے مطابق ملکی سطح پر پولیس اہلکاروں کی منظور شدہ تعداد ہر ایک لاکھ کی آبادی پر 195 ہے ۔ یعنی کہ ملک بھر میں ایک پولیس اہلکار پر 512 لوگوں کے تحفظ کی ذمہ داری ہے ۔ حالانکہ حقیقت میں بھارت میں ہر ایک لاکھ کی آبادی پر اوسطاً 156 پولیس اہلکار ہی ہیں یعنی ایک پولیس اہلکار پر اصل میں 641 لوگوں کی سیفٹی کا بوجھ ہوتا ہے۔ بلاشبہ ہریانہ میں بھی پولیس فورس ضرورت کے مطابق نہیں کہی جاسکتی ، لیکن پھر بھی قومی اوسط سے کہیں بہتر ہے۔ پھر سوال صرف تعداد کی استطاعت کا نہیں ہے، پولیس انتظامیہ کے اقبال کا بھی ہے۔ جتنا اونچا اقبال، اتنا مضبوط اعتبار۔ لیکن تشدد کے بیچ نوح میں یہ اقبال کہیں دکھائی نہیں دیا ہے۔ واقعے کے دن چھ گھنٹے تک فساد ہوتا رہا ۔ دونوں برادریوں کی طرف سے فائرنگ ہوئی ۔ 150 سے زیادہ گاڑیاں جلائی گئیں۔6 لوگ مار دئے گئے ، درجنوں لوگ تشدد کی لپیٹ میں آئے۔اس دوران پولیس کہاں تھی؟ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یاترا کیلئے 900 پولیس والے تعینات تھے۔ پھر تشدد کے دوران یہ سب کہاں تھے؟ یاترا نلہڑ کے جس نلہریشور مندر سے شروع ہوئی تھی ، وہاں کیئر ٹیکر اور یاترا میں شامل لوگوں کے مطابق فساد بھڑکا تو مندر میں 4 ہزار سے زیادہ لوگ پھنسے ہوئے تھے۔اس بھیڑ کو سنبھالنے کیلئے مندر کے گیٹ پر 10 پولیس والے بھی موجود نہیں تھے۔سوال انٹیلی جنس کی ناکام کا بھی ہے۔ جب یاترا سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر دونوں گروپ کے بیچ بحث شروع ہوچکی تھی تو احتیاط کیوں نہیں برتی گئی ؟ تشدد سے پہلے متنازعہ ویڈیو وائر ل ہوتے رہے۔ پھر بھی فسادیوں کے منصوبوں کو بھانپنے میں غلطی کیسے ہوگئی؟
سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ کیا نوح کے واقعے کو روکا جاسکتا تھا؟ مسلم فریق کی طرف سے بجرنگ دل کارکنان اور ناصر جنید قتل کے ملزم گئو رکشک مونو مانیسر کو کٹہرے میں کھڑا کیا جارہا ہے۔ یاترا میں شرکت کرنے کے حوالے سے اس کی اشتعال انگیز ویڈیو بھی وائرل ہورہی تھی۔ دوسری طرف مسلم فریق کی طرف سے شوبھا یاترا میں شامل لوگوں کو سبق سکھانے کی باتیں بھی ہورہی تھیں۔ حالانکہ بعد میں مونو مانیسر اور اس کے جارح گئورکشک ساتھی وشوہندو پریشد کے مشورے پر یاترا میں شامل نہیں ہوئے، کیوں منتظمین کو اندیشہ تھا کہ ان لوگوں کی موجودگی سے کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔لیکن ان لوگوں کی موجودگی کی افواہ نے ہی تشدد کو بھڑکا دیا ۔ نوح ضلع کے فیروز پور جھرکا سیٹ سے کانگریس کے ایم ایل اے مامن خان بھی اپنے چھ ماہ پرانے بیان کی وجہ سے سوالوں کے گھیرے میں ہیں۔ 22 فروری کو مامن خان نے ہریانہ اسمبلی میں کہا تھا کہ اگر پولیس مونو مانیسر اور اس کے ساتھی بٹو بجرنگی کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ہے تو ہم خود سبق سکھائیں گے۔ مامن خان کا یہ بیان دو سال قبل دہلی میں ہوئے تشدد کے پیٹرن کی یاد دلاتا ہے جہاں اسی طرح کے بیان کے بعد منصوبہ بند طریقے سے تشدد کا ماحول تیار ہوا تھا۔ مامن خان کے اس بیان کو سپیکر یا حکمران جماعت سنجیدگی سے لیتی تو شاید نوح کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ اس لیے نوح کی انتظامیہ اور ہریانہ کی حکومت سے پوچھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اتنے اشارے کے بعد بھی وہ ہاتھ جوڑ کر کیوں اور کیسے بیٹھی رہی؟
تشدد کا یہ معاملہ سپریم کورٹ بھی پہنچاہے۔ ملک کی سپریم کورٹ نے حساس علاقوں میں سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی بڑھانے اور نفرت انگیز تقاریر پر پابندی لگانے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ قدم یقیناً خوش آئند ہے، کیونکہ اشتعال انگیز تقریر کا کردار تشدد کی آگ بھڑکانے میں کسی بھی مظاہرے یا ریلی سے کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین موقع اور سیاسی نفع و نقصان کے مطابق بیانات دیتے ہیں جس کا خمیازہ معصوم عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جو کچھ نوح میں ہوا اسے کسی طرف سے اچھا نہیں کہا جائے گا۔ اس کی وجہ سے دونوں فرقوں کے ذہنوں میں ایک دوسرے کے تئیں جو شک پیدا ہوا ہے وہ خطرناک ہے۔ ہریانہ کے نقطہ نظر سے یہ ایک حیران کن واقعہ ہے کیونکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی تشدد میں بدلنے کی ماضی کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ ویسے بھی تمام مذاہب کی مساوات صدیوں سے ہمارے طرز زندگی کی بنیاد رہی ہے۔ ہمارے معاشرے نے ہمیشہ بنیاد پرستی کی آڑ میں اس پر حملہ کرنے اور سماجی بھائی چارے کے تانے بانے کو پارہ پارہ کرنے کی ہر کوشش کی مخالفت کی ہے۔ صرف مخالفت ہی نہیں ،بلکہ معاشرے میں نفرت پھیلانے کی ایسی ہر سازش کے بعد ملک بار بار متحد ہو کر سامنے آیا ہے۔ سال 1947 میں تقسیم کے بعد ملک کے ٹوٹنے اور پھر فسادات سے سنبھلنے کا عمل بہت طویل ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ نوح بھی اس امتحان سے مستثنیٰ ثابت نہیں ہو گا۔ امید ہے کہ اپنی ناکامی کی وجہ سے تنقید کی زد میں آنے والی ہریانہ حکومت آنے والے دنوں میں نہ صرف مجرموں کے خلاف تیز اور موثر کارروائی کرے گی بلکہ انصاف اور باہمی ہم آہنگی کی حکمرانی قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوگی۔
بھارت ایکسپریس۔
ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ وزیراعظم ایک بہت ہی نجی تقریب کے لیے میرے…
چند روز قبل بھی سلمان خان کو جان سے مارنے کی دھمکی موصول ہوئی تھی۔…
ٹرمپ یا کملا ہیرس جیتیں، دونوں ہندوستان کو اپنے ساتھ رکھیں گے۔ کیونکہ انڈو پیسیفک…
تیز رفتار بس مونسٹی کے قریب لوہے کے ایک بڑے کھمبے سے ٹکرا گئی۔ کھمبے…
جب تین سال کی بچی کی عصمت دری کر کے قتل کر دیا گیا تو…
اتوار کو ہندو سبھا مندر میں ہونے والے احتجاج کے ویڈیو میں ان کی پہچان…