غبارے کا جھگڑا اب بچوں کا کھیل نہیں رہ گیا ہے۔ اس کھیل کو بھی بڑوں کی نظرلگ گئی ہے۔ بڑے بھی ایسے جو اپنی طاقت کے غرور میں دوسروں کو کمزور دکھانے کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔ بات امریکہ اور چین کی ہی ہو رہی ہے۔ غبارے کی لڑائی میں یہ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ایک طرف امریکہ جہاں چین کا غبارہ پھوڑکر جاسوسی کی سازش کا پردہ فاش کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے، وہیں چین اسے بھٹکا ہوا موسمی آلہ بتاکر امریکہ پر بے وجہ ہائے توبہ مچانے کا ٹھیکرا پھوڑ رہا ہے۔
بہرحال غبارہ اب پھوٹ چکا ہے اور اس میں سے کیا کیا نکلا، اس کی جانکاری اتنی ہی واضح ہے، جیسے اس معاملے میں دونوں ممالک سے آئے باضابطہ بیان۔ جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ دونوں فریق میں زبردست آپسی خدشہ ہے اور یہی بات اس حادثے میں دنیا کی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سچائی اس سب کے درمیان میں کہیں ہے۔ اگرغبارے کے ملبے سے امریکہ کافی سامان بازیافت کرلیتا ہے، تو وہ شاید یہ پتہ لگا سکے گا کہ اس کے ذریعہ کس طرح کی جانکاریاں جمع کی جا رہی تھیں، کتنی جانکاری جمع کی جاچکی تھی اور کیا اس سے متعلق کوئی ڈیٹا چین واپس بھیجا گیا تھا یا بھیجا جا رہا تھا؟ غبارے سے ملی جانکاری چین کی تکنیکی صلاحیتوں کو تھوڑا اور سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ چین کی شاطر چالوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ پکڑے جانے پر چین نے غبارے کو خود برباد کرنے یا ڈیٹا میں اختلاط کا منصوبہ پہلے سے بنا رکھا ہو۔ امریکہ کی تفتیش ہائی برڈ سیٹلائٹ نیٹ ورک کے استعمال کے امکان تک پہنچ گئی ہے، جس میں سیٹلائٹ کو دشمن کی زد میں لائے بغیر ایک زیادہ اونچائی والے پلیٹ فارم کی مدد سے محفوظ طریقے سے ڈیٹا منتقل کرنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ویسے اس سب کے ساتھ امریکہ کو اس بات پر بھی غورکرنا چاہئے کہ آرٹیفیشیل انٹلی جنس کے دور میں چین نے اس کی مصنوعی ذہانت کے دور میں چین نے اپنی ’جاسوسی‘ کے لئے ماضی کے غبارے پر ہی داؤں کیوں کھیلا، جس کا استعمال کبھی دوسرے عالمی جنگ میں جاپانی فوج نے امریکہ پر اگنی بم لانچ کرنے کے لئے کیا تھا۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ اورسوویت یونین نے ایک دوسرے کی نگرانی کے لئے غبارے کا کھیل جم کرکھیلا تھا۔ خود امریکہ پنٹاگن کے تحفظ کے لئے آسمانی اونچائی پر اڑنے والے غباروں کی تعیناتی پر لمبے وقت سے غور کر رہا ہے۔ سرسری طور پر اس کی وجہ غبارے کے استعمال کے کئی فائدے ہوسکتے ہیں۔ اس میں جاسوسی کیمرے، رڈار، سینسر جیسے آلات نصب کئے جاسکتے ہیں، ڈرون یا سیٹلائٹ کے مقابلے میں اس کو تعینات کرنا کم خرچ والا ہوتا ہے، سیٹلائٹ کے مقابلے اس کی رفتارکم ہونے کی وجہ سے یہ طویل عرصے تک نگرانی کی گئی جگہ پرمنڈلا سکتا ہے۔
تاہم وہ چین ہی کیا جس کا ٹریپ دنیا کو اتنی آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ اس نے یقینی طور پر یہ چکر کسی اور بڑے فائدے کی تلاش میں چلا یا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ چین نے امریکہ کو یہ اشارہ دیا ہو کہ وہ آپسی تعلقات میں سدھار کے لئے تیار ہے، لیکن بغیرکشیدگی میں اضافہ کئے امریکہ سے مقابلہ کے لئے وہ کوئی بھی ضروری قدم اٹھانے کے لئے آزاد بھی ہے اور اہل بھی ہے۔ پہلے غبارے کا مونٹانا جیسے ایٹمی میزائل کے ٹھکانے والے زیادہ محفوظ علاقے میں ’بھٹک کر‘ پہنچ جانا اور پھر تین دن بعد ہی امریکی سرحد میں ایک اور غبارے کا ملنا گلے نہیں اترتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ چین دراصل چاہتا ہی تھا کہ امریکہ کو ان غباروں کا پتہ چل جائے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ امریکہ اس پر کیسا ردعمل ظاہر کرتا ہے اور یہ دکھانے کے لئے بھی کہ وہ کوئی بڑا خطرہ مول لئے بغیر امریکی ہوائی علاقے میں دراندازی کرنے کی تکنیکی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
صرف طریقہ ہی نہیں، اس تقریب کا وقت بھی بہت اہم ہے۔ اگرچین جان بوجھ کرنہیں بھی چاہتا تھا کہ اس کا غبارہ پکڑا جائے، تب بھی اس ‘لاپرواہی’ کے لیے اس سے بہتر وقت کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا تھا۔ امریکہ ہمیشہ سے اپنی خودمختاری کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے بہت حساس رہا ہے۔ پہلے ہم نے افغانستان، عراق، بلقان میں دیکھا اوراب ہم مغربی بحرالکاہل کے علاقے یا یوکرین میں دیکھ رہے ہیں کہ اگر وہاں کچھ بھی غیرمتوقع ہوتا ہے توامریکہ میں قومی سلامتی کے خطرات جنم لیتے ہیں۔ کورونا کے حملے، گیس کی بڑھتی قیمتوں، مہنگائی کے باعث یہ خطرہ مزید تشویشناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ ان سب کے درمیان چین کے اس پر باقاعدہ سائبرحملے، اس کا کورونا وائرس پھیلانے کی ذمہ داری سے واضح طور پر بچ نکلنا، انفراسٹرکچر میں دراندازی کرنا اوراب اس پرجاسوس سیٹلائٹ اڑانے اور پھر بھی ‘سزا’ نہ ملنے پرامریکی قیادت اوردنیا میں اس کی بادشاہت دونوں کٹہرے میں کھڑی ہو رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اب اس کے لئے عام امریکی کو یہ باور کرانا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ چین کے ساتھ اس کا تنازع ایشیا تک ہی محدود رہے گا اوراس کی آنچ امریکی سرزمین تک نہیں پہنچے گی۔ اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب چین امریکہ کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے۔ خدشات کے پیش نظراپنے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے دورہ بیجنگ کو ملتوی کر کے امریکہ نے ایک بار پھر یہ ظاہرکر دیا ہے کہ وہ آؤٹ آف دی باکس سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرنا چاہتا۔ پانچ سال بعد دونوں ممالک کے درمیان اتنے بڑے پیمانے پرملاقات ہونے والی تھی اورکشیدگی کے باوجود امریکہ بیجنگ میں اپنا نمائندہ بھیج کر چین کو حیران کرسکتا تھا اور دونوں ممالک کے مقابلے کو آپسی جدوجہد میں بدلنے سے روکنے کے لئے کچھ ٹوس پہل کرتا ہوا بھی نظرآسکتا تھا۔ افسوس کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی ملکی سیاست کے دباؤ میں یہ موقع گنوا دیا۔
لیکن اصل خطرہ امریکہ-چین جدوجہد کا نہں ہے، اس سے کہیں بڑا ہے پلوائریزیشن کا، دنیا کی تقسیم کا۔ امریکہ کا خود کو چینی غبارے کا واحد ہدف نہیں بتانا ایک طرح سے پولرائزیشن کی پرانی بحث کو نیا ایام دینے جیسا ہی ہے، جس میں ایک طرف چین-روس-شمالی کوریا ہیں اور دوسری طرف امریکہ، یوروپ اور زیادہ تر اہم ایشیائی ملک۔ امریکہ کے دفاعی محکمہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسی طرح کے غبارے شمال اور جنوب امریکہ، جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی ایشیا اور یوروپ میں آپریٹ کئے گئے تھے۔ امریکی میڈیا میں بھی ایسی خبریں ہیں کہ مشتبہ غبارہ اسکیم چین کے ساحلی ہینان صوبہ سے جاپان، ہندوستان، ویتنام، تائیوان اور فلیپنس جیسے ممالک میں آپریٹ کی جارہی تھی۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ سیمی کنڈکٹر صنعت تک چین کی پہنچ کو محدود کرنے اور اس کی مائیکروچپ سپلائی چین کو کاٹنے کے لئے امریکہ نے گزشتہ ماہ ہی نیدرلینڈ کے ساتھ ساتھ جاپان کے ساتھ بھی ایک سمجھوتہ کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، تائیوان کے موضوع پر چین کے ساتھ کسی ممکنہ جدوجہد کی صورتحال کے لئے امریکی فوج نے فلیپنس میں اپنی صلاحیتوں کی توسیع کا اعلان بھی کیا ہے۔
سمندری اور تکنیکی شعبے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو شمالی سرحدوں پر چین کی جارحیت کے بعد ہندوستان کا جھکاؤ بھی مغرب، خاص طور پر امریکہ کی طرف بڑھا ہے۔ بے شک ہم نے اقتصادی طور پر چین کے ساتھ اپنی تجارت کو بنائے رکھا ہے اور روس سے کم لاگت والی توانائی فراہمی بھی مسلسل جاری ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیسے جیسے عالمی پولرائزیشن بڑھے گا، ہم پر اپنی ‘طرفداری’ ظاہر کرنے کا دباؤ بھی بڑھے گا۔ اتنا ہی نہیں، کسی ممکنہ بڑے عالمی خطرے کو ٹالنے کی ذمہ داری بھی شاید سب سے زیادہ ہمارے کندھوں پر ہی رہنے والی ہے۔ ویسے تاریخی نظریے سے دیکھا جائے تو دنیا اپنے ڈیفالٹ موڈ میں واپس آتی ہوئی نظرآرہی ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ سرد جنگ کے دور میں نیوکلیئر طاقت خوشحال ممالک کی جو تعداد پانچ تک محدود تھی، وہ اس وقت 9 تک پہنچ گئی ہے۔ تو ظاہر ہے کہ تباہی کا خطرہ اور خطرناک ہوا ہے۔ بھٹکے غبارے کی طرح یہ نیوکلیئر طاقت ملک دنیا میں امن بنائے رکھنے کی اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بھٹکیں گے، اس کی امید ہی کی جاسکتی ہے۔ چینی غبارے کو مار گرانا امریکہ کی طرف سے قومی فخر کا صرف ایک مظاہرہ ثابت ہو، یہی انسانیت کے لئے بہتر ہوگا۔
روپ وے پراجیکٹ پر وشنو دیوی سنگھرش سمیتی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تشکیل…
اپیندر رائے نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’’چیف…
ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…
وزیر اعظم نریندر مودی کا کویت کا دو روزہ دورہ ختم ہو گیا ہے اور…
مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور
بہار میں گرینڈ الائنس حکومت کے قیام کے بعد خواتین کو 2500 روپے ماہانہ دینے…