بین الاقوامی

The readers of East and West are so impressed by the poetry of Rumi: رومی کی شاعری سےکیوں ہیں مشرق و مغرب کے قارئین اتنے متاثر؟

رومی ایک ایسےصوفی بزرگ تھے جسے  دنیا دیوانہ سمجھتی تھی۔

 رومی کی نظم کا ایک چھوٹا سا حصہ 

جیسے ہی میں نے اپنی پہلی محبت کی کہانی سنی،

میں تمہیں ڈھونڈنے لگا

یہ سمجھے بغیر کہ وہ تلاش کتنی اندھی تھی۔

محبت کرنے والے کہیں نہیں ملتے

وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے اندر رہتے ہیں۔

مذہبی اسکالر جلال الدین رومی، عالمی شہرت یافتہ شاعر اور صوفی بزرگ بننے سے پہلے، خالی پن کے احساس سے نبردآزما تھے جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ رومی کے ہزاروں مداح اور شاگرد تھے، پھر بھی وہ محسوس کرتے تھے کہ ان کی زندگی میں کچھ کمی ہے۔

رومی کی دعائیں اس وقت قبول ہوئیں جب شمس تبریز نامی ایک آوارہ درویش ان کی زندگی میں آیا۔ ایک دوسرے سے ملنے کے بعد دونوں اچھی طرح سمجھ گئے کہ ان کے اندر خدا کو جاننے کی مشترکہ تڑپ ہے۔

شمس نے ایک ایسے شخص کی تلاش میں پورے مشرق وسطیٰ کا سفر کیا تھا جو اس کی صحبت برداشت کر سکے۔ کہا جاتا ہے کہ رومی کتابوں کے ڈھیر کے پاس بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے کہ بکھرے بالوں والا شمس وہاں آیا۔ شمس تبریز نے ان سے پوچھا، ‘تم کیا کر رہے ہو؟’ رومی نے سوچا کہ وہ ایک ان پڑھ اجنبی ہے۔

تو انہوں نے طنزیہ انداز میں جواب دیا، ‘تم نہیں سمجھو گے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔’ یہ سن کر شمس نے کتابوں کا ایک ڈھیر اٹھایا، جو رومی نے خود لکھا تھا، اور قریبی تالاب میں پھینک دیا۔ رومی جلدی سے تالاب سے وہ کتابیں نکالنے کے لیے بھاگے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیے کہ وہ تمام کتابیں سوکھ چکی تھیں۔ رومی نے شمس سے پوچھا، ‘یہ سب کیا ہے؟’ شمس نے جواب دیا، ‘مولانا آپ یہ نہیں سمجھیں گے۔’

بس پھر کیا تھا، اس واقعے کے بعد رومی اس بدتمیز آوارہ کے غلام بن گئے انہوں نے بے تابی سے شمس کو اپنی زندگی میں خوش آمدید کہا۔ کہا جاتا ہے کہ شمس نے رومی کو چالیس دن تک خلوت میں پڑھایا۔ رومی اس کے بعد ایک بہترین استاد سے ایک سنیاسی بن گئے۔

جلال الدین رومی۔

رومی کے شاگرد اور اصحاب شمس سے حسد کرتے تھے۔ انہیں  اپنے دوست اور استاد پر شمس کا اختیار پسند نہیں تھا۔ ایک رات رومی اور شمس آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ کسی نے شمس کو پچھلے دروازے سے پکارا۔ وہ باہر نکلا تو اس کے بعد کسی نے اسے نہیں دیکھا۔ کہا جاتا ہے کہ شمس رومی کے بیٹے علاؤالدین کی ملی بھگت سے مارا گیا۔

شمس سے علیحدگی کے بعد رومی بہت پریشان ہو گئے۔ ایک قسم کا روحانی جنون ان پر چھایا ہوا تھا۔ وہ سڑکوں پر ناچتے اور بے ساختہ گانے گاتے پھرتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کے اس گیت اور رقص نے ’سماع‘ کی دعائیہ مجلس کی شکل اختیار کر لی، جس میں ان کے تمام شاگرد شریک ہونے لگے۔ سماء ایک قسم کی دعا ہے، جو ناچتے اور گانے کے دوران کی جاتی ہے۔ اب اسے درویشوں کے رقص کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں۔

لکھنؤ کے رومی دروازے میں دراڑیں، مرمت کا کام شروع

رومی شمس کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے اور شام کے دارالحکومت دمشق تک گئے۔ وہاں صحرا میں انہیں  احساس ہوا کہ ڈھونڈنے کے لیے بھٹکنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ انہوں  نے محسوس کیا کہ وہ خدا یا شمس کو نہیں پا سکتے کیونکہ وہ ہمیشہ سے ان کے اندرہی  تھے۔ انہوں نے سوچا، ‘میں اسے کیوں تلاش کروں؟ میں بھی ویسا ہی ہوں جیسا وہ ہے۔ ان  کا جوہر پھر میرے ذریعے بولتا ہے۔ یہ وہی ہے جو میں اپنے آپ کو تلاش کر رہا ہوں.

رومی دمشق سے چلے گئےاور ایک مکمل طور پر بدلے ہوئے انسان بن کر آئے ۔ انہوں نے کتابیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں۔ انہوں نے اپنی باقی زندگی شمس کے ساتھ جس راز اور محبت کا اظہار کیا تھا اس کے اظہار میں گزار دی۔ رومی نے شاعری کو سب سے موزوں ذریعہ پایا جس کے ذریعے وہ اپنے گرو شمس تبریز کے لیے اپنی عقیدت اور احترام کا اظہار کر سکتے تھے۔

رومی ایک انتہا پسند  عاشق

جلال الدین رومی ایک عظیم صوفی بزرگ ہیں۔ وہ بہت ہی خوبصورت انسان ہیں لیکن آج کی دنیا میں اجنبی لگتے ہیں کیونکہ آج سب کچھ حساب بن چکا ہے، سب کچھ سودا ہے۔ رومی یا تصوف وہاں  بالکل فٹ نہیں بیٹھتے جہاں سب کچھ سودا ہو۔

 یقین نہیں ہوتا  کہ وہ اکیسویں صدی میں مقبول ہو رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ رومی کی مقبولیت ایک ایسے وقت میں بڑھ رہی ہے جب پوری دنیا میں لوگ اس قدر منطقی اور تکنیکی ہو رہے ہیں۔ سنجیدہ لوگ جو آپ کی طرف نہیں دیکھتے اور نہ ہی مسکراتے ہیں جلال الدین رومی پڑھ رہے ہیں۔ رومی کی کتابیں، ان کی موسیقی اور بہت سی دوسری چیزیں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن واقعی رومی پڑھا نہیں جا سکتا۔ اگر آپ رومی بننا چاہتے ہیں، اگر آپ رومی کے بارے میں تھوڑا سا بھی جاننا چاہتے ہیں، تو آپ کو بے قابو ہو کر ناچنا پڑے گا – اس مقام تک جہاں آپ اپنا دماغ کھو بیٹھیں۔ انہوں نے  بھی ایسا ہی کیا۔ انہوں نے رقص میں خود کو اتنا ڈبو دیا کہ انکے دماغ نے مداخلت کرنا چھوڑدی ۔ ۔ اگر آپ رومی کے دل میں جھانکیں تو آپ کو معلوم ہوگاکہ  ذہنی توازن کا فقدان ہے۔ وہ بے حد پاگل ہیں۔ رومی کی تعریف کرنا آسان ہے لیکن ان کے راستے پر چلنا دوسری بات ہے۔ جب انہیں پاگل کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب معاشرے کی نظر میں پاگل ہے، وجودی طور پر پاگل نہیں۔ وجودی طور پر، وہ انتہائی ذہین تھے ، لیکن سماجی طور پر پاگل تھے۔  لیکن یہ پاگل پن ہی تھا جسکی دنیا آج دیوانی ہے ۔اور انکی شاعری پوری دنیا میں تصوف کی بہترین مثال ہے۔

Afreen Waseem

Recent Posts

Supreme Court: حکومت ہر نجی جائیداد پر قبضہ نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے معاشی ڈھانچے (نظام)میں نجی شعبے کی اہمیت ہے۔…

1 hour ago

Donald Trump vs Kamala Harris: ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس، کس کی جیت ہوگی بھارت کے لیے فائدے مند؟

ٹرمپ یا کملا ہیرس جیتیں، دونوں ہندوستان کو اپنے ساتھ رکھیں گے۔ کیونکہ انڈو پیسیفک…

3 hours ago