بین الاقوامی

Starvation stalks Gaza amid aid shortage: غزہ میں دودھ نہ ملنے سے دو ماہ کے بچے کی موت،والدین بھوکے بچے کو گھوڑے کا گوشت کھلانے پر مجبور

فلسطین کے محصور علاقے غزہ میں جارحیت کو 140 روز مکمل ہو گئے ہیں، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی بمباری میں مزید 100 سے زائد افراد شہید ہو گئے ہیں۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 29,606 فلسطینی شہید اور 69,737 زخمی ہو چکے ہیں، گزشتہ رات جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیل کی بمباری میں 8 افراد شہید ہوئے، جب کہ حماس سے لڑائی میں ایک اور اسرائیلی فوجی افسر ہلاک ہو گیا، جس کی عمر 21 سال تھی۔

زمینی آپریشن کے دوران اب تک 238 اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں، اسرائیلی وزیر اعظم نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا رفح میں حماس کے مکمل خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں، ادھر اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیلی مذاکرات کار آئندہ ہفتے دوحہ جائیں گے۔دوسری جانب اسرائیلی جنگی کونسل نے جلد ہی ایک وفد قطر بھیجنے کے لیے آمادی کا اظہار کیا ہے جس کا مقصد غزہ میں عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کی راہ ہموار کرنا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاھو نے نشاندہی کی کہ “اس طرح کے معاہدے کا مطلب جنگ کا خاتمہ نہیں ہے”۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب اسرائیلی جنگی کونسل نے کل شام اپنے اجلاس میں پیرس میں ہونےوالے مذاکرات پر غور کرنا تھا۔ اجلاس میں آنے والے دنوں میں وفد کو دوحہ بھیجنے کی منظوری دی گئی۔

اس بیچ دو دردناک انسانیت سوز واقعات رونما ہوئے ہیں۔ پہلا واقعہ دودھ کی قلت سے بچے کی موت کا ہے۔غزہ شہر کے الشفاء ہسپتال میں محمود فتوح نامی 2 ماہ کا بچہ غذائی قلت کے باعث انتقال کر گیا ہے۔وفا نیوز ایجنسی کے مطابق بچے کی موت اس وقت ہوئی جب اس کے لیے دودھ اور بنیادی سامان نہ مل سکا۔ایک پیرامیڈیک (جس نے بچے کے والدین کی ہسپتال لانے میں مدد کی تھی) کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک خاتون کو دیکھا جو اپنے بچے کو گود میں لےکر مدد کے لیے چیخ رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا بچہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔

اسی دوران غزہ کے شمالی علاقے میں جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ میں بھوک سے تڑپتے بچوں کا باپ بچوں کی خاطر اپنے گھوڑے ذبح کرنے پر مجبور ہوگیا۔العربیہ کی ایک رپورٹ کےمطابق ابو جبریل نامی فلسطینی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا ‘میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ بھوک سے نڈھال بچوں کو خوراک دے سکوں اس لیے میں نے اپنے گھوڑوں کو ذبح کر دیا تاکہ ہم کچھ اور نہ ملنے کے باعث گھوڑوں کا گوشت کھا کر ہی زندہ رہ سکیں۔ابو جبریل نے مزید بتایا کہ ہم بڑی عمر کے لوگ تو بھوک اور  پیاس برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنی زندگی کے اس مشکل مرحلے کا اندازہ ہے لیکن 4 اور  5 سال کے بچوں کو بھوکا پیاسہ رکھنا بہت مشکل ہے، انہیں بھوکا سلانا اور بیدار ہوتے ہی بھوک سے بلکتا دیکھ کر ہماری برداشت جواب دے جاتی ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts

Parliament Winter Session: پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس 25 نومبر سے 20 دسمبر 2024 تک چلے گا

Parliament Winter Session: پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے ٹویٹ کیا، "پارلیمنٹ کا سرمائی…

8 mins ago