پڑوسی ملک پاکستان میں سیاسی اتھل پتھل اپنے شباب پر ہے ۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے سیاسی وجود کو ختم کرنے کیلئے سرگرم پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو اس وقت جھٹکا لگا جب جیل میں بند عمران خان کی پارٹی کو الیکشن سے مکمل طور پر باہر رکھنے کے منصوبہ کو پشاور کی عدالت نے یہ کہتے ہوئے خاک میں ملادیا کہ پی ٹی آئی کو بلے کے نشان پر پورے ملک میں امیدوار اتارنے اور الیکشن لڑنے کا حق ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا۔ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشد علی نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
بدھ کو تحریک انصاف کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم نے عدالت میں فیصلے کے حق میں دلائل دیے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت نے الیکشن کمیشن کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو اپنے ایک فیصلے میں پی ٹی آئی کی طرف سے کروائے گئے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس جماعت کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور جسٹس کامران حیات میاں خیل پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے 26 دسمبر کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا، جس کے خلاف الیکشن کمیشن نے نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی اور تین جنوری 2024 کو جسٹس اعجاز خان نے کمیشن کے فیصلے کو بحال کر دیا۔
تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر اس فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کی سماعت، 10 جنوری 2023 کو جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشاد علی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی اور پی ٹی آئی، الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس کر دیا۔ تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو میں فیصلے کو بروقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’کل ہم اپنے ٹکٹوں کا اعلان کریں گے اور پرسوں پورے پاکستان کے حلقوں میں ہمارا امیدوار ہو گا۔ سماعت کا آغاز ہوا تو ایڈوکیٹ قاضی جواد نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’میرے موکل کو میڈیا سے پتہ چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہو رہے ہیں۔ وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ’آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کروائے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا تو آپ کو چاہیے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے۔ جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ ’آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا آپ نے نہیں کیا۔ اس پر قاضی جواد نے کہا کہ ’ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے۔ دوسری جانب بینچ میں شامل جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ’ایک دفعہ الیکشن شیڈول جاری ہو جائے تو پھر کیسے آپ کسی کے انتخابی نشان کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ جسٹس ارشد علی نے کہا کہ ’کیا کوئی پارٹی بغیر انتخابی نشان کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے؟ عدالتی فیصلے کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’قوم کو مبارک دینا چاہتا ہوں کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنی انصاف اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی روایت کو آج قائم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے جو بلے کا انتخابی نشان پی ٹی آئی سے زبردستی لیا تھا اس حکم نامے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’عدالت نے کہا ہے کہ فی الفور بلے کا نشان پی ٹی آئی کو واپس دیا جائے اور اسے اپنی ویب سائٹ پر اسے نوٹیفائی کر دیا جائے۔ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بلے کا نشان پی ٹی آئی کے لیے صرف ایک نشان نہیں ہے یہ پاکستانی قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرنے والا نشان ہے۔‘
بھارت ایکسپریس۔
Parliament Winter Session: پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے ٹویٹ کیا، "پارلیمنٹ کا سرمائی…
مدھیہ پردیش کے ڈپٹی سی ایم راجیندر شکلا نے کہا کہ اب ایم پی میں…
ہندوستان سمیت دنیا بھر میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اتوار کو الیکشن منعقد…
ایم ایل اے راجیشور سنگھ نے منگل کوٹوئٹر پر لکھا، محترم اکھلیش جی، پہلے آپ…
سومی علی نے جواب دیا، 'ان کو قتل کیا گیا تھا اور اسے خودکشی کا…
سی ایم یوگی نے عوام سے کہا کہ انہیں اپنی طاقت کا احساس دلائیں، ذات…