بھارت ایکسپریس۔
Israel-Hamas War: اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ جاری ہے۔ دنیا کے تمام ممالک نے دونوں ممالک کے درمیان پُرتشدد حملوں سے متعلق ردعمل کا اظہارکیا ہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی نے ٹوئٹ کرکے لکھا کہ ہندوستان اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد قیاس آرائی کی جانے لگی کہ روس-یوکرین جنگ میں اہم کردارنبھانے والا ہندوستان اسرائیل کی حمایت میں کھڑا ہوگیا ہے۔ اسی درمیان سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کا ایک ویڈیو بھی خوب وائرل ہو رہا ہے، جس میں وہ فلسطین کی حمایت کر کے اسرائیل کے ظلم کی بات کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ہندوستان مکمل طور پرفلسطین کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
دراصل، ہندوستانی حکومت نے فلسطین-اسرائیل تنازعہ پر اب تک کوئی رخ واضح نہیں کیا ہے۔ حالانکہ وزیراعظم نریندرمودی نے حماس کے جنگجوؤں کے ذریعہ اسرائیل پر راکٹ حملے پراعتراض ظاہرکیا ہے۔ حماس نے جیسے ہی اسرائیل پرحملے کا آغاز کیا، دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی، لیکن ہندوستان نے اب تک اس پرکوئی بیان نہیں دیا ہے۔ اس معاملے میں ہندوستان نے اب تک صرف اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کے لئے ایڈوائزری جاری کردی ہے۔
فلسطین کی نمائندگی کس کے پاس؟
اسرائیل کی سرحد شمال میں لبنان، مشرق میں شام اوراردن، جنوب میں مصراورمغرب میں غزہ اور بحیرہ روم سے ملتی ہے۔ فلسطین دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے، اسے غزہ کی پٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسرا حصہ مغرب میں اردن سے متصل ہے جسے مغربی کنارے کہا جاتا ہے۔ غزہ پرحماس کا قبضہ ہے اور مغربی کنارے پرفتح حکومت ہے، جسے بھارت کی حمایت حاصل ہے۔
ہندوستان اورفلسطین کے تعلقات کیسے رہے ہیں؟
ہندوستان اب تک فلسطین کے مطالبات کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ہندوستان سال 1947 میں فلسطین کی تقسیم کے خلاف کھڑا تھا۔ ہندوستان نے 1970 کی دہائی میں پی ایل او اوراس کے رہنما یاسرعرفات کی حمایت کی۔ اس کے بعد ہندوستان نے 1975 میں پی ایل اوکوتسلیم کیا۔ ہندوستان پہلا غیرعرب ملک تھا، جس نے پی ایل اوکو تسلیم کیا۔ 1988 میں ہندوستان نے رسمی طور پر فلسطین کوایک ملک کے طورپرتسلیم کیا۔ ہندوستان نے سال 1996 میں فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے قیام کے بعد غزہ میں اپنا نمائندہ دفتربھی کھولا۔ تاہم 2003 میں اسے ‘رملہ’ منتقل کردیا گیا۔ رملہ مغربی کنارے کا ایک شہرہے، جو جودی پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ فلسطینی صدرمحمود عباس نے سال 2008 میں ہندوستان کے دورے کے دوران نئی دہلی میں فلسطینی سفارت خانہ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات
ہندوستان نے 1950 میں اسرائیل کو منظوری دی تھی۔ حالانکہ 1992 سے پہلے ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ سال 1992 میں پہلی بارہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کئے تھے۔ سال 2015 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اسرائیل کے خلاف ایک تجویزپیش کی تھی۔ اس تجویزمیں غزہ علاقے میں اسرائیل کے حقوق انسانی کی خلاف ورزی شامل تھی۔ اس تجویز پر ہندوستان نے اسرائیل کے خلاف ووٹ کرنے سے کنارہ کشی اختیارکرلی تھی۔ فی الحال جانکاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل-فلسطین کے موضوع پرہندوستان کا رخ غیرجانبدارہوگا۔ ساتھ ہی خاص توجہ امن بحالی پرہوگی، لیکن حماس کے حملے سے متعلق ہندوستان اعتراض ظاہرکرسکتا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آندھرا اوربہارکے وزرائے اعلیٰ کوکھلے لفظوں میں یہ باور…
سنبھل میں کل ہوئے تشدد کے بعد آج صورتحال قابو میں ہے۔ یہاں پرانٹرنیٹ بند…
جھارکھنڈ لوک تانترک کرانتی کاری مورچہ کے ایم ایل اے جئے رام کمار مہتو ریاست…
رپورٹ کے مطابق روزگار کے محاذ پر باضابطہ افرادی قوت پھیل رہی ہے، مینوفیکچرنگ سیکٹر…
ججوں نے کہا کہ انہیں یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے معقول بنیادیں ملی ہیں…
مہاراشٹراسمبلی الیکشن میں مہایوتی کی زبردست جیت تو ہوگئی ہے، لیکن ابھی تک نئے وزیراعلیٰ…