بین الاقوامی

رنگارنگی کے ثمرات

برٹن بولاگ (واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزاد پیشہ صحافی ہیں۔)

امریکی اعلیٰ تعلیم کی خوبیوں میں سے ایک مختلف النوع یونیورسٹیوں اور کالجوں کی ملک میں موجودگی  ہے۔ ان میں سرکاری اور نجی، بہت بڑے اور بہت چھوٹے اور یہاں تک کہ ایسے ادارے بھی شامل ہیں جن کا  قیام اسی لیے عمل میں آیا کہ وہ بغیر تفریق ِ مذہب و ملّت تدریس کے مراکزبن سکیں۔ ان کے علاوہ وہاں  مذہبی وابستگی والے ادارے بھی موجود ہیں۔ان کے جائے قیام میں بھی تنوع کی جھلک نظرآتی ہے۔ یہ ادارے شہری، مضافاتی یا دیہی علاقوں میں قائم ہیں۔

امریکی محکمہ تعلیم کے مطابق ملک میں ان تعلیمی اداروں کی تعداد ۳۹۳۱ ہے جنہیں طلبہ کو  ڈگریوں سے نوازنے کا اختیار ہے۔ سرکاری اداروں میں اندراج کی شرح سب سے زیادہ ہے کیونکہ وہ نجی اداروں سے بڑے ہیں۔ نجی اسکولوں کو حکومت کی طرف سے مالی اعانت نہیں دی جاتی ہے ۔ ایسے ادارے عطیات، اثاثوں، خیراتی رقومات اور ٹیوشن ادائیگیوں پر چلتے ہیں۔ امریکہ میں تقریباً تین چوتھائی نجی ادارے غیر منافع بخش ہیں۔

امریکہ میں بیشتر کالج اور یونیورسٹیوں میں چار سالہ انڈر گریجویٹ ڈگری پروگرام دستیاب ہیں۔ یونیورسٹیوں میں  گریجویٹ اور پی ایچ ڈی پروگرام بھی ہوتے ہیں۔ دوسری جانب کمیونٹی کالج کے پروگرام  دو سالہ ہوتے ہیں جن میں  نظریات پر کم کریئر سازی پر توجہ زیادہ دی جاتی ہے۔

سرکاری یونیورسٹیوں کا انتظام و انصرام اور مالی اعانت ان ریاستی حکومتوں کے ذمے ہوتا ہے جہاں وہ واقع ہیں۔ امریکہ کی ۵۰ ریاستوں میں سے ہر ایک میں کم از کم ایک سرکاری یونیورسٹی قائم ہے۔ ایسی   یونیورسٹی عموماً ایک بڑے ریاستی یونیورسٹی نظام کا حصہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک سسٹم ۶۴ مختلف سرکاری اداروں پر مشتمل ہے جن میں اعلیٰ تحقیقی یونیورسٹیوں سے لے کر ٹیکنالوجی کالج اور کمیونٹی کالج تک شامل ہیں۔

امریکہ کی بیشتر سب سے بڑی یونیورسٹیاں سرکاری ہیں۔ سب سے بڑی ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی ہے جس نے موسم خزاں ۲۰۲۰ ءکے بعد سے ہر سال ۷۰ ہزار سے زیادہ طلبہ کو داخلہ دیا ہے۔ جس ریاست میں یونیورسٹی واقع ہے وہاں کے طلبہ کو دیگر امریکی ریاستوں یا دیگر ممالک کے طلبہ کے مقابلے میں کم ٹیوشن فیس ادا کرنا ہوتی ہے۔

نجی یونیورسٹیاں عام طور پر سرکاری یونیورسٹیوں کے مقابلے چھوٹی ہوتی ہیں جن میں اکثرکم طلبہ والی چھوٹی کلاسیں ہوتی ہیں اور یہ زیادہ مہنگی بھی ہوتی ہیں۔ امریکہ کی کچھ معروف ترین یونیورسٹیاں جیسے ہارورڈ، ییل اور پرنسٹن وغیرہ اسی زمرے میں آتی ہیں۔ عطیات وصول کرنے اور طلبہ کی ٹیوشن ادائیگیوں کے علاوہ ان اداروں کے پاس اثاثے ہوتے ہیں جن کی احتیاط سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور ایسی سرمایہ کاری ہر سال یونیورسٹی کے لیے سود سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ذریعہ بنتی ہے۔

 لبرل آرٹس کالج نجی اور غیر منافع بخش ہوتے ہیں جہاں ہیومینیٹیز، سائنسز اور سوشل سائنسیز کی پڑھائی ہوتی ہے۔ یہ اپنی کلاسوں میں طلبہ کی تعداد کم رکھتے ہیں اور عموماً تحقیق کرانے کے بجائے بیچلر کی ڈگری کا اہل بنانے کے لیے بہتر انڈرگریجویٹ تعلیم کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

کمیونٹی کالج زیادہ تر دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام پر مبنی ہوتے  ہیں۔ وہ پوسٹ سیکنڈری تعلیم کی کم سے کم مہنگی پڑھائی کی بھی سہولت فراہم کرتے ہیں۔  بعض طلبہ کسی مخصوص شعبے میں نچلے سے درمیانے درجے کی ملازمت کی تیاری کے لیے دو سالہ ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ کئی طلبہ بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کی خاطر چار سالہ کالج میں منتقل ہونے کے لیے ایک قدم کے طور پر کسی کمیونٹی کالج میں داخلہ لیتے ہیں۔

پیشہ ورانہ تکنیکی اور کریئر پروفیشنل اسکول مختلف صنعتوں یا کریئر میں خصوصی تربیت پیش کرتے ہیں۔ یہ ایسی تربیت ہے جس کے نتیجے میں عام طور پر دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری یا مختصر سرٹیفکیٹ حاصل ہوتا ہے۔ یہ اعلیٰ تعلیم کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ عملی ہوتا ہے اور کم سے کم نظریہ پر مبنی۔ مختلف اسکولوں کے مطالعاتی پروگراموں میں مختلف مہارتوں سے متعلق پڑھائی ہوتی ہے جن میں کھانا پکانے کے فنون،  آگ بجھانا ، فیشن ڈیزائن، تعمیراتی مہارت، دانتوں کی صحت اور طبی ریکارڈ رکھنے جیسے شعبے شامل ہیں۔ یہ اسکول سرکاری یا نجی ہو سکتے ہیں۔ اس شعبے میں منافع بخش نجی اسکولوں کی ایک قابل ذکر تعداد شامل ہے۔

آرٹس کالج اور کنزرویٹریز فنون پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ کورس ورک کے علاوہ ان میں عام طور پر اسکول کے توجہ کے میدان میں گہرا عملی تجربہ شامل ہوتا ہے جن میں موسیقی، بصری آرٹ، تھیٹر یا فوٹوگرافی شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کالج میں  فائن آرٹس یا کسی خاص شعبے میں ایسوسی ایٹ یا بیچلر کی ڈگری کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ وہ عام طور پر ان نوجوانوں کو تعلیم دیتے ہیں جو اپنے شعبے جیسے سِمفنی آرکیسٹرا اور پیشہ ورانہ تھیٹر کے اعلیٰ درجے تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

-بھارت ایکسپریس

Nisar Ahmad

Recent Posts

KK Menon on cinema and entertainment: سنیما اور انٹرٹینمنٹ ​​پر کے کے مینن نے کہا، ’یہ بزنس آف ایموشن ہے‘

اداکار کے کے مینن آنے والی اسٹریمنگ سیریز ’سیٹاڈیل: ہنی بنی‘ میں نظر آئیں گے،…

5 hours ago

India vs New Zealand: سرفراز خان کا بلے بازی آرڈر بدلنے پریہ عظیم کھلاڑی ناراض، گمبھیر-روہت پرلگائے الزام

نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے ٹسٹ میچ کی پہلی اننگ میں سرفراز خان کچھ خاص…

7 hours ago

کانگریس پرالزام حقیقت سے دور… مفت اسکیم سے متعلق وزیراعظم مودی کے طنزپرپرینکا گاندھی کا پلٹ وار

کانگریس صدر ملیکا ارجن کھڑگے نے کرناٹک میں وزیراعلیٰ سدارمیا اورنائب وزیراعلیٰ ڈی کے شیوکمارکے…

8 hours ago