حماس اور اسرائیل کے درمیان 100 دنوں کے بعد بھی جنگ جاری ہے۔ 25000 سے زیادہ فلسطینیوں کی شہادت ہوچکی ہے اور جو لوگ بچ گئے ہیں اب ان کی باری ہے چونکہ اسرائیل کی 2025 تک کیلئے تیاری ہے۔حالانکہ حماس کے جنگجوں کے عزائم ابھی بھی مستحکم ہیں اور وہ100دنوں بعد بھی صہیونی فورسز کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں ۔ لیکن اس جنگ نے غزہ کی جو تصویر بنائی ہےاس میں ہر طرف لاشوں کا انبار ہے ،معصوم نہتے فلسطینیوں کی چیخ وپکار ہے اور ماتم کا ایسا ماحول ہے کہ انسانیت بھی شرمسار ہے۔دکھ ،درد تکلیف کی جتنی بھی قسمیں ہوسکتی ہیں ،وہ تمام آج فلسطینی جھیل رہے ہیں ،جبکہ ظلم وستم اور درندگی کی جتنی بھی انتہا ہوسکتی ہے وہاں تک اسرائیل پہنچ چکا ہے ۔ حیرانی اس بات پر نہیں ہے کہ اسرائیل نے درندگی کی انتہا کردی ہے ، بلکہ افسوس اس بات پر ہے کہ عالمی رہنماوں نے بھی انسانیت اور انصاف کا جنازہ نکال دیا ہے۔عالم یہ ہے کہ آج غزہ میں جو لوگ بھی زندہ ہیں وہ سب بھوک کے مارے ہیں ،اور بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔
خیر یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے عالم اسلام ہی نہیں امریکہ یورپ بھی آنکھیں چرا رہا ہے لیکن فلسطینی اور حماس کے جنگجوآج بھی اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ اعلان کررہا ہے کہ ابھی جنگ میں ہم نے اپنا بیسٹک اٹیک شروع ہی نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاید اسرائیلی وزیراعظم کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ حماس کو فی الحال ختم کرنا یا اس جنگ کا خاتمہ مستقبل قریب میں ممکن نہیں ہے چونکہ حماس ابھی بھی جوان ہے۔اور اسی لئے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف جنگ 2025ء تک جاری رہ سکتی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے یہ بات جنگی کابینہ کے اراکین کے مقامی کونسلوں کے سربراہوں کے ساتھ اجلاس کے دوران کہی۔اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ کے قریب کمیونٹیز کے مقامی کونسل کے سربراہوں کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حماس کے خلاف جنگ 2025ء تک جاری رہے گی۔چونکہ حماس نے سات اکتوبر کے حملے کے ردعمل کا پہلے سے ہی اندازہ لگالیا تھا اور اس کیلئے قریب تین سال تک تیاری کی تھی کہ ردعمل کا جواب کیسے کیسے اور کتنے دنوں میں دیا جاسکتا ہے ،حماس نے کئی سالوں تک اسرائیل کے خلاف جنگ کی حکمت عملی پر کام کیا ہے پھراس کے بعد سات اکتوبر کا سرپرائز دیا۔ اب عالم یہ ہے کہ اسرائیل حماس کے سرنگوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کو مجبور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
غزہ کی پٹی میں تقریبا چار ماہ سے جاری حماس اوراسرائیلی فوج کی لڑائی میں حماس کے سرنگ نیٹ ورک کو دیکھ کر اسرائیلی فوج بھی حیران وپریشان ہے۔امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں اپنی زمینی کارروائی کے دوران اسرائیلی فوج حماس کی کھودی گئی سرنگوں کے سائز کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ان سرنگوں میں سے ایک اتنی چوڑی تھی کہ ایک کاراس میں سے گذر سکتی تھی، جبکہ دیگر زیر زمین نیٹ ورک تقریباً تین فٹبال کے میدانوں کے سائز کے تھے۔سرنگوں میں داخل ہونے والے اسرائیلی اہلکار سرنگوں کی چوڑائی، گہرائی اور معیار کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ ان کا خیال ہے کہ اب تک جتنی سرنگوں کا پتا چلا ہے۔ ان سے کہیں زیادہ سرنگیں مزید باقی ہیں جن کی نشاندہی ابھی کرنا ہے۔سرنگوں کے نیٹ ورک کے اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ سرنگیں 350 سے 450 میل تک لمبے سرنگ نیٹ ورک کے وجود کی نشاندہی کرتی ہیں۔ کچھ حکام کا کہنا ہے کہ سرنگوں کی طرف جانے والے تقریباً 5,700 الگ الگ راستے ہیں۔اسرائیلی فوج ان سرنگوں کو زیر زمین ڈراؤنا خواب اور حماس کے لیے ’لائف لائن‘ سمجھتی ہے۔ اس لیے اسرائیل ان سرنگوں کو مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔لیکن حماس کو اس کا بھی اندازہ تھا کہ اسرائیل ہماری سرنگوں تک پہنچیں گے ،اس لئے پہلے سے ہی اس کی تیاری کرلی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوج آج بھی حماس کے سرنگوں کو دیکھ رہی ہے تو سرپکڑ کر بیٹھ جارہی ہے۔حالانکہ اس بیچ ایک اچھی خبر بھی آئی ہے اور وہ خبر حماس کے قید میں اسرائیلی یرغمالیوں کیلئے ہے۔
دراصل قطر اور اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ دوحہ اور پیرس کی ثالثی کے بعد غزہ میں حماس کے پاس موجود اسرائیلی قیدیوں کو ادویات اور علاقے میں امداد کی فراہمی کے معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ دوحہ نے ’اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت اسرائیلی قیدیوں کے لیے ضروری ادویات کی فراہمی کے بدلے غزہ میں شہریوں کو دیگر انسانی امداد کے ساتھ ادویات بھی فراہم کی جائیں گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے دفتر نے بھی معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: ’قطری نمائندے یہ دوائیں غزہ کی پٹی میں حتمی منزل تک پہنچائیں گے۔فرانسیسی صدر دفتر کے مطابق ادویات 45 قیدیوں کے لیے ہیں۔ گذشتہ نومبر میں ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ 83 قیدیوں کو ادویات کی ضرورت ہے لیکن اب تک 38 قیدیوں کو یا تو رہا کر دیا گیا ہے یا وہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں مارے جاچکے ہیں۔البتہ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ غزہ میں 25ہزار سے زیادہ شہریوں کی شہادت کے بعد بھی اسرائیل عالمی عدالت انصاف سے لیکر دنیا کے ہر پلیٹ فارم اپنا دامن صاف دکھانے کی کوشش کررہا ہے۔جبکہ غزہ میں ہیومینیٹیرین صورتحال انسانیت پر لگے ایک داغ کے برابر ہے۔ غزہ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں، تباہی، لاکھوں انسانوں کا بے گھر ہو جانا، بھوک اور دکھ ، یہ سب کچھ وہ ہے جو انسانیت کے دامن پر لگا ایک داغ ہے۔اس کے بعد بھی کچھ لوگ اسرائیل کو انسانیت نواز ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنا ،اس لفظ کے ساتھ زیادہ ہوگی ۔اس لئے آپ خودسے غور کیجئے اور سوچئے کہ کل تک کون لوگ انصاف اور انسانیت نوازی کا دم بھر رہے تھے اور کون آج انصاف اور انسانیت کا جنازہ اٹھارہے ہیں ۔
بھارت ایکسپریس۔
دہلی اسمبلی الیکشن کے لئے بی جے پی نے امیدواروں کے ناموں پر غوروخوض تقریباً…
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سوربھ شرما کے اکاؤنٹ کی تمام تفصیلات ان کے…
پی ایم مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہندوستان موبائل مینوفیکچرنگ میں دنیا…
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کامیاب پیروی پر وکلاء کی ستائش…
راج یوگی برہما کماراوم پرکاش ’بھائی جی‘ برہما کماریج سنستھا کے میڈیا ڈویژن کے سابق…
پارلیمنٹ میں احتجاج کے دوران این ڈی اے اور انڈیا الائنس کے ممبران پارلیمنٹ کے…