عام طوپر یہ دیکھا جاتا ہے کہ شہری علاقوں کے لوگ بازار سے شہد خرید تے ہیں، لیکن ابھی بھی بہت سے لوگوں نے شہد کی مکھیاں نہیں دیکھی ہوں گی،لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شہد کی مکھیوں کی بقا پر ہم سب کا انحصارہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ شہد کی مکھیاں اور تتلیوں، چمگادڑوں، ہمنگ برڈزجیسے پرندوں کو انسانی سرگرمیوں سے خطرہ لاحق ہے۔
دنیا کے تقریباً 90 فیصد جنگلی پھولدار پودوں پر شہد کی مکھیوں کا انحصار ہوتا ہے،اس کے علاوہ ہم عام طورپر یہ دیکھتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کے علاوہ ایسے پرندے جو پھولوں کا رس چوستے ہیں ان کی بقا،ان کی اہمیت او وفادیت، انہیں درپیش خطرات سے بچانے اورلوگوں میں ان سے متعلق بیداری پیدا کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے 20 مئی کو شہد کی مکھیوں کا ۔عالمی دن قرار دیا ہے
شہد کی مکھیاں اور دیگر پولینٹر(پھولوں کا رس چوسنے والے پرندے) بہتر ماحولیاتی نظام اور غذائیت سے بھر پور خوراک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ یعنی شہد کی مکھیاں زندگی گزارنے کے درکار غذائیت سے بھرپور خوراک کی پیداوار کو یقینی بنانے میں غیر معمولی رول ادا کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہد کی مکھیوں پر ان دنوں خظرات کے بادل منڈ لارہے ہیں۔
انسان کی روز مرہ کی منفی سرگرمیوں کے اثرات کی وجہ سے شہد کی مکھیاں اور تتلیوں، چمگادڑوں، ہمنگ برڈزجیسے پرندوں ختم ہونے کی شرح معمول سے 100 سے 1000 گنا زیادہ ہے۔ 35 فیصد شہد کی مکھیوں اور تتلیوں کی زندگی پر خطرات منڈ لا رہے ہیں۔
اگر یہ رجحان اسی طرح جاری رہتا ہے تو غذائیت سے بھرپور فصلیں، پھل، رس دار میوے اور بہت سی سبزیاں،اس کے علا وہ فصلیں جیسے چاول، مکئی اور آلو جیسی فصلوں کے معیار میں تببدیلی کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کا سیدھا اثر ہمارے روز مرہ کے زندگی پر پڑ سکتا ہے۔
شہد کی مکھیوں کی دیکھ بھال بے حد ضروری ہے ۔ اس میں روزگار کے مواقع بھی بے شمار ہیں۔اس معاملہ میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی وہ نسل جو زیادہ سے زیادہ شہد پیدا کرتی ہیں اس مکھی کا نام میلیپوناڈنک ہے اور مکھیوں کے لئے بنائے جانے والے چھتوں میں اس کی خاص انداز سے پرورش و پرداخت کی جاتی ہے۔
شہد کی مکھیوں کی پرورش اور شہد کے پیداور کے لیےآج سے تقریباً 10,000 سال پہلے انسانوں نے جد و جہد کی شروعات کی تھی۔ جارجیا کو “شہد کی مکھیوں کا گہوارہ” کہا جاتا ہے اور سب سے قدیم اور معیاری شہد اسی ملک میں ملتا ہے۔ 5,500 سال پرانا شہد بورجومی قصبے کے قریب 2003 میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران ایک بزرگ خاتون کی قبر سے برآمد ہوا تھا۔
قبر میں پائے جانے والے سیرامک کے برتنوں میں شہد کی کئی اقسام ہیں، جن میں لنڈن اور پھولوں کا شہد شامل ہے۔ تقریباً 4,500 سال قبل کے مصری فن میں شہد کی مکھیوں کا گھریلو عمل دیکھا جا سکتا ہے۔ قدیم چین، یونان اور مایا میں بھی شہد کی مکھیاں پالنے کے ثبوت موجود ہیں۔
دہلی اسمبلی الیکشن کے لئے بی جے پی نے امیدواروں کے ناموں پر غوروخوض تقریباً…
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سوربھ شرما کے اکاؤنٹ کی تمام تفصیلات ان کے…
پی ایم مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہندوستان موبائل مینوفیکچرنگ میں دنیا…
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کامیاب پیروی پر وکلاء کی ستائش…
راج یوگی برہما کماراوم پرکاش ’بھائی جی‘ برہما کماریج سنستھا کے میڈیا ڈویژن کے سابق…
پارلیمنٹ میں احتجاج کے دوران این ڈی اے اور انڈیا الائنس کے ممبران پارلیمنٹ کے…