دنیا انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف جہاں تیسری عالمی جنگ کا خوف دنیا کو ڈرا رہا ہے تو دوسری طرف انتقام کی آگ میں انسانیت تڑپ رہی ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ نے غزہ میں پہلے سے ہی نظر آرہی انسانی صورتحال کو بڑی تباہی میں بدلنے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ غزہ کا شمار دنیا کے گنجان ترین شہروں میں ہوتا ہے اور اس وقت اسی شہر پر آفات کے گھنے بادل منڈلا رہے ہیں۔ فضائی حملوں کے دوران 10 لاکھ افراد کو اپنی جانیں بچانے کے لیے غزہ سے اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ حملے میں چار ہزار سے زائد افراد ہلاک اور دس ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ جو لاشیں گری ہیں، ان میں ہر تیسری لاش کسی نہ کسی بچے کی ہے۔ ہلاکتوں کی یہ تعداد سرکاری ہے یعنی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسری طرف حماس کے حملے میں تقریباً 1500 اسرائیلی بھی ہلاک اور 3500 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی سال 2023 غزہ کے لیے گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے مہلک سال بن چکا تھا۔ لیکن اس نئی تباہی نے غزہ کو مشکلات کے اندھیرے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔
غزہ سے نکلنے والی معلومات دل دہلا دینے والی ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔ شیلٹرز پناہ گزینوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (OCHA) کے مطابق غزہ میں دستیاب زمینی پانی کا 97 فیصد زیادہ نمک کی وجہ سے انسانوں کے لیے زہر کے برابر ہے۔ فلٹر کیے بغیر اس کا استعمال مہلک ہو جاتا ہے۔ لیکن ایندھن کے بغیر، غزہ کا واحد پاور اسٹیشن بند ہے اور اس کی وجہ سے نمک کو کھارے پانی سے الگ کرنے والے آلات بند پڑے ہیں، جس سے تقریباً 60 لاکھ لوگ صاف پانی سے محروم ہیں۔ UNRWA نے خبردار کیا ہے کہ اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو مستقبل میں لوگ ڈیہائڈریشن سے مرنے لگیں گے۔ سب سے بری حالت تو بچوں کی ہے، جن میں صاف پانی کی کمی کی وجہ سے بیکٹیریل پیچش کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ پانی کی قلت، سیوریج کی آلودگی اور لاوارث لاشوں سے متعدی امراض کے پھیلنے میں اضافہ ہوگا۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق غزہ پٹی میں ساڑھے پانچ ہزار سے زائد حاملہ خواتین کے اگلے ماہ تک بچے کی پیدائش متوقع ہے لیکن صحت کی سہولیات اور زندگی بچانے کے انتظامات کی قلت اور غزہ کی مکمل ناکہ بندی کا مطلب ہے کہ ان میں سے کئی زچہ بچہ کے سامنے زندگی اور موت کا سوال کھڑا ہو سکتا ہے۔
تو ایسے حالات میں غزہ کے پاس آپشن کیا ہیں؟ ظاہر ہے کہ حملے بند ہوں اور مدد جلد از جلد پہنچے۔ لیکن یہ کہنا جتنا آسان ہے کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ غزہ کے لوگوں کے لیے اپنی جان بچانے کے لیے آپشنز محدود ہیں۔ غزہ کی دونوں سرحدیں ناکہ بندی کے تحت سیل کر دی گئی ہیں۔ بچا ہے تو مصر کے ساتھ مشترکہ رفح بارڈر جہاں سے نکل کر ساڑھے تین لاکھ مہاجرین نے پہلے ہی مصر میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ امریکہ اور اقوام متحدہ کی اپیلوں کے باوجود مصر اب مزید فراخدلی دکھانے کو تیار نہیں۔
ایسے میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اب غزہ کے اندر ہی محفوظ زون بنانے کے آپشن پر کام کر رہے ہیں تاکہ متاثرین کو بروقت مدد مل سکے۔ ایک اندازے کے مطابق، طبی دیکھ بھال، ایندھن اور دیگر ہنگامی امداد جیسی کم از کم جان بچانے والی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 294 ملین ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ اقوام متحدہ نے اب اس کے لیے فلیش اپیل جاری کی ہے۔ امریکہ نے غزہ اور مغربی کنارے کے لیے 100 ملین ڈالر کی انسانی امداد کا بھی اعلان کیا ہے۔ توقع ہے کہ اس سے 10 لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد کی مدد ہوگی۔ امریکہ اس بات کو بھی یقینی بنا رہا ہے کہ امداد صرف ضرورت مندوں تک پہنچے – حماس یا دہشت گرد گروپ کسی بھی طرح ان کا حصہ نہ ہڑپ جائیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نے غزہ میں خوراک، ادویات اور پانی کے 20 ٹرکوں کی نقل و حرکت کی اجازت دینے والے معاہدے کی بھی ثالثی کی ہے۔ صورتحال کو خراب کرنے کے لیے ذمہ دار بتائے جارہے روس نے بھی 27 ٹن کی رسد بھیجی ہے۔
ان سب کے بیچ بڑا سوال یہ ہے کہ اس مدد سے غزہ کی سانسیں کتنے دن تک چلیں گی۔ غزہ کو تب تک بجلی، ایندھن اور پانی تک رسائی کی توقع نہیں ہے جب تک حماس یرغمال بنائے گئے تمام 199 اسرائیلیوں کو رہا نہیں کرے گا۔ دوسری طرف امریکہ بھی اتنی سنگین صورتحال کے باوجود اپنی شناخت کے مطابق دوہرا رویّہ دکھانے سے باز نہیں آیا۔ ایک طرف وہ غزہ کو امدادی سامان پہنچا رہا ہے تو دوسری طرف اس نے اقوام متحدہ میں اپنے ویٹو کا استعمال اس قرارداد کو روکنے کے لیے کیا ہے جس میں اسرائیل سے غزہ پٹی میں محفوظ انخلاء کے لیے انسانی راہداری کی اجازت دینے، لڑائی کو روکنے، اور شہریوں کے بے گھر ہونے کے حکم کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے پیچھے امریکہ کی وضاحت یہ ہے کہ قرارداد میں اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی حمایت کرنے والے برطانیہ نے دلیل دی ہے کہ قرارداد میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ حماس کس طرح عام فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
یقیناً یہ تمام اعتراضات اہم ہیں اور ان کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس وقت ان لاکھوں جانوں کو بچانا زیادہ ضروری ہے جو کسی اور کی غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ معصوم لوگ بالخصوص بچے سیاسی اور عسکری کشمکش میں پھنس گئے ہیں جس میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ انہیں کسی بھی طرح نشانہ نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی ایسا کیا جانا چاہیے۔ غزہ کے معصوم شہریوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور جنگ جاری رہنے پر ان کے ساتھ آنے والے وقت میں اور کتنا برا ہو سکتا ہے، یہ فی الحال تصور سے بھی باہر ہے۔ اس سب کے بعد بھی اگر ہماری ہمدردیاں سرحدوں اور نسلوں سے محرک ہوں اور دو گروہوں میں فرق ہو تو ایسی ہمدردی کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ کسی کو بھی انسانی تکلیف پہنچانا غلط ہے، اور جب بھی ہم اسے دیکھتے ہیں تو ہم سبھی کو اس پر اعتراض درج کرانے اور احتجاج کرنے کے لیے تیار اور قابل ہونا چاہیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے کون مسلط کر رہا ہے یا کون برداشت کر رہا ہے۔ اس لیے یہ بحث بھی بے معنی ہو جاتی ہے کہ کس کے پاس اخلاقی طور پر بڑی بنیاد ہے؟ عام فہم تو یہی کہتی ہے کہ جو راستے سے بھٹک گئے ہیں، انہیں سمجھا کر ہی ان کا دل بدلا جا سکتا ہے، دبانے سے نہیں۔ اس سبق کو فراموش کر چکی دنیا شاید انہیں وجہوں سے اپنے حال کے لیے خود ذمہ دار ہے۔
بھارت ایکسپریس۔
عالمی فوجداری عدالت کے ججوں نے نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ…
شاہ رخ خان کے 1980 کی دہائی کے مشہور شو فوجی کی جدید موافقت ’فوجی…
فلسطینی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا…
پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا، "ہم مسلسل وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی برطرفی کا…
پرتھ کی پچ تیز گیند بازوں کے لیے مددگار رہی ہے۔ یہاں کی پچ گیند…
منگل کے روز روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کے ایک حکم نامے پر دستخط کیے،…