اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پراکثریہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے اوراپنی پارٹی کے کئی لیڈران کے خلاف مقدموں کو ختم کردیا ہے۔ لیکن وہ اپنے فیصلوں سے اس الزام کو صحیح بھی ثابت کردیتے ہیں۔ اب ایک اورمعاملہ موضوع بحث بن سکتا ہے اورریاست کی سیاست گرم ہوسکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق، یوگی حکومت سماجوادی پارٹی کے دورحکومت میں ہوئے کانپورکے 2015 کے فساد سے متعلق کیس واپس لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں ضلع مجسٹریٹ کانپورسٹی کوایک خط بھی بھیج دیا گیا ہے۔
حکومت نے ملزمین کے خلاف درج مقدمات کے بارے میں معلومات طلب کی تھی، جس کے بعد کیس واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یوپی حکومت نے اس سلسلے میں ضلع انتظامیہ کو8 اکتوبرکوایک خط جاری کیا تھا۔ ضلعی انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ متعلقہ عدالت میں مقدمات کی واپسی کا عمل شروع کیا جائے۔ سرکاری وکلا کو متعلقہ عدالت میں درخواست دائرکرکے مقدمات واپس لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
انتظامیہ نے دی جانکاری
ایک سرکاری وکیل نے جانکاری دی کہ ہمیں ایک خط ملا ہے، جس میں ہمیں معاملے کوواپس لینے کے لئے متعلقہ عدالت میں عرضی داخل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حالانکہ ہم نے ابھی تک درخواست جمع نہیں کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 8 اکتوبرکولکھا گیا خط ریاستی حکومت کے ایک اسپیشل سکریٹری نے بھیجا تھا۔ اس سے پہلے، حکومت نے معاملے کی جانکاری کے ساتھ ساتھ پولیس اوروکلاء سمیت ضلع افسران کی رائے مانگی تھی۔
کیا تھا پورا معاملہ؟
24 اکتوبر 2015 کوکانپورکے فضل گنج پولیس اسٹیشن میں درشن پوروا چوکی کے انچارج نے 50 سے زیادہ شرپسندوں کے خلاف فساد، غیرقانونی سرگرمیوں اورعوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ الزامات کے مطابق سیسہ مئواسمبلی حلقہ میں درشن پورا کے پاس ایک بینرلگا ہوا تھا۔ اس بینرمیں 25 اکتوبرکوہونے والے بھنڈارے کے بارے میں لوگوں کوآگاہ کیا گیا تھا۔ اس بینرپردرگا کی تصویر چھپی تھی۔ 23 اکتوبرکومحرم جلوس کے دوران بینرٹوٹ کرگرگیا۔ الزام لگایا گیا کہ جلوس میں شریک کچھ لوگوں نے جان بوجھ کربینراتاردیا اور تصویرکی توہین کی، جس کے بعد ہنگامہ شروع ہوگیا تھا۔ طویل بحث کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ طے پایا اوریہ بھی طے پایا کہ جہاں جھگڑا ہوا، وہاں سے جلوس نہیں نکالا جائے گا پھر بھی اس واقعہ کے بعد شرپسند عناصر نے مقامی لوگوں کواکسایا اورقابل اعتراض نعرے لگائے گئے، جس کے بعد علاقے میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی۔ مشتعل لوگوں نے پولیس پربھی پتھراؤکیا، پولیس نے لوگوں کو بھگانے کے لئے لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔ اب یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ سماجوادی پارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے فضل گنج تھانے میں ہندوؤں کے خلاف فساد بھڑکانے کے الزام میں ایف آئی آردرج کی گئی تھی اوراس وقت کے سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی عرفان سولنکی نے 32 بے قصورلوگوں کوجیل بھجوا دیا تھا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس کے شواہد اوراستغاثہ کی رپورٹ کی بنیاد پرحکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ مقدمہ واپس لیا جائے گا اوراس سلسلے میں ضروری قانونی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ مقدمے کوختم کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے اسپیشل سکریٹری مکیش کمارسنگھ نے ضلع مجسٹریٹ کانپورکوایک مکتوب جاری کیا ہے۔
-بھارت ایکسپریس
راج یوگی برہما کماراوم پرکاش ’بھائی جی‘ برہما کماریج سنستھا کے میڈیا ڈویژن کے سابق…
پارلیمنٹ میں احتجاج کے دوران این ڈی اے اور انڈیا الائنس کے ممبران پارلیمنٹ کے…
این سی پی لیڈرچھگن بھجبل کی وزیراعلیٰ دیویندرفڑنویس سے ملاقات سے متعلق قیاس آرائیاں تیزہوگئی…
سردی کی لہر کی وجہ سے دہلی پر دھند کی ایک تہہ چھائی ہوئی ہے۔…
ڈلیوال کا معائنہ کرنے والے ایک ڈاکٹر نے صحافیوں کو بتایاکہ ان کے ہاتھ پاؤں…
سنبھل میں یو پی پی سی ایل کے سب ڈویژنل افسر سنتوش ترپاٹھی نے کہاکہ…