قومی

Mob Lynching in India: مسلمانوں پر تشدد اور موب لنچنگ کو ہرگزبرداشت نہیں کیا جاسکتا، حکومت کی جوابدہی طے ہونی چاہئے: جماعت اسلامی ہندکا بڑا مطالبہ

جماعت اسلامی ہند نے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے بعد مسلمانوں پرہونے والے تشدد اورموب لنچنگ پر ناراضگی کا اظہارکیا ہے۔ جامعہ نگر واقع مرکزی دفتر میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران نائب امیرجماعت انجینئرمحمد سلیم نے کہا کہ ملک کے مختلف خطوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی، ہجومی تشدد اورانہدامی کارروائیوں میں اضافہ ہونے لگا ہے، جس پر جماعت ہند کو کافی تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی این ڈی اے حکومت کو اقتدارسنبھالے ہوئے کچھ ہفتے ہی ہوئے ہیں، اس قلیل عرصے میں ہی اتنے سارے واقعات کا ہوجانا، بتا رہا ہے کہ مرکزی حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غافل ہے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے سکریٹری محمد شفیع اور اے پی سی آر کے سربراہ اور معروف سماجی کارکن ندیم احمد بھی موجود رہے اور اپنی بات رکھی۔

انجینئرمحمد سلیم نے کہا کہ ملک کو تقسیم کرنے والے اور نفرت پیدا کرنے والے لوگوں سے ہماری لڑائی ہے۔ نفرت کی سیاست نہیں ہونی چاہئے اورفاشسٹ طاقتوں کو روکا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو بھی اپنا راج دھرم نبھانا چاہئے۔ ساتھ ہی اپوزیشن کو اپنی ذمہ داری بہتر طریقے سے نبھانے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت تشدد کی ان گھناؤنی کارروائیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرے تاکہ مسلمانوں کو فرقہ وارانہ نشانہ بنانے کا یہ سلسلہ بند ہو۔

ملک کے مختلف حصوں میں ہو رہی ہے موب لنچنگ: ندیم احمد

اے پی سی آرکے سربراہ اور معروف سماجی کارکن ندیم احمد نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی موب لنچنگ ہو رہی ہے، جس کی ہم پُرزور مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک طرف بی جے پی حکومت پر سوال اٹھایا، لیکن ساتھ ہی اپوزیشن یا سیکولر پارٹیوں کی حکومتوں پربھی سوال اٹھایا ہے۔ ندیم احمد نے کہا کہ بی جے پی کی حکومتیں جہاں ہیں، وہاں بھی استحصال ہو رہا ہے اور تشدد کئے جا رہے ہیں۔ پھر بی جے پی لیڈران ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں اور سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن مغربی بنگال، تلنگانہ، ہماچل پردیش میں جہاں سیکولر پارٹیوں کی حکومت ہے، وہاں بھی یہی صورتحال دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس لئے سیکولرپارٹیوں کو مسلمانوں کو ووٹ بینک نہیں سمجھنا چاہئے۔

جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ فوجداری قانون، انڈین پینل وڈ (آئی پی سی) اور کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آرپی سی) کی جگہ نئے قوانین بھارتیہ نیائے سنہیتا (بی این ایس) اور بھارتی ناگرگ کرسکشا سنہیتا (بی این ایس ایس) نافذ کیا ہے، یہ تشویش کی بات ہے، وہ پرانے قانون کے تحت حل کئے جائیں گے جبکہ بعد درج ہونے والے معاملے نئے قوانین کے تحت آئیں گے۔ جماعت کا کہنا ہے کہ قوانین میں تبدیلی کی جاسکتی ہے، لیکن اس میں پولیس کو مضبوط کیا جانا ٹھیک نہیں ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Nisar Ahmad

Recent Posts

Parliament Winter Session: پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس 25 نومبر سے 20 دسمبر 2024 تک چلے گا

آنے والے سرمائی اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ 26 نومبر کو یوم دستور…

21 mins ago