قومی

UP Muslims and Lok Sabha Results: یوپی کے مسلم ووٹروں نے خاموشی سے بی جے پی کا کھیل کردیا خراب،راہل اکھلیش کی دانشمندانہ حکمت عملی ہوگئی کامیاب

لوک سبھا انتخابات 2024 کے نتائج سامنے آنے کے بعد یوپی میں بی جے پی کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ یوپی میں بی جے پی کی سیٹوں میں 32 سیٹیں کم ہوئی ہیں اور ایس پی نے اتنی ہی سیٹیں حاصل کی ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو اور کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی مسلم ووٹوں کو متحد رکھنے کی حکمت عملی بی جے پی کو یہ دھچکا دینے میں کام کرتی نظر آرہی ہے اور مسلم ووٹروں نے بغیر بھٹکے خاموشی سے ایک جگہ ای وی ایم کا بٹن دبا دیا۔اگرچہ یوپی سے پانچ مسلم ممبران پارلیمنٹ لوک سبھا میں پہنچ چکے ہیں، مسلم ووٹروں نے ایس پی-کانگریس کے  انڈیااتحاد کے حق میں ووٹ دیا لیکن عوامی طور پر کبھی اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ ایس پی، کانگریس اور بی ایس پی کے خیر خواہ کہلانے کے باوجود مسلم تنظیموں نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اس کی وجہ سے ایکشن ری ایکشن نہ ہوسکا اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا نہ ہونا  انڈیااتحاد کے لیے فائدہ مند رہا۔

مسلم ووٹروں نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی

لوک سبھا انتخابات شروع ہونے سے پہلے ہی یوپی میں مسلم مذہبی رہنماؤں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ جب تک مسلمان یوپی میں مذہب اور ذات پات کی سیاست کرتے رہیں گے، ان کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔خاص بات یہ بھی تھی کہ اس بار ریاست کے مسلم ووٹروں نے خاموشی سے ملک کی سب سے بڑی پنچایت کے لیے اپنے مینڈیٹ کا فیصلہ کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں اتر پردیش سے ایک بھی مسلم رکن لوک سبھا نہیں پہنچا تھا، لیکن 2019 کے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست سے چھ مسلم چہرے لوک سبھا پہنچے تھے۔حالانکہ  سیاسی جماعتوں نے پچھلے انتخابات کے مقابلے میں کم مسلم لیڈروں کو میدان میں اتارا تھا۔ بی ایس پی نے زیادہ سے زیادہ 20 امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔ کانگریس نے دو مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے اور ایس پی نے چار مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے، جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ پولرائزیشن سے بچنے کی کوشش کی گئی۔

وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم الیاس کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ اس بار ملک اور خاص طور پر اتر پردیش کے مسلمانوں نے لوک سبھا انتخابات میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن نہیں ہونے دیا۔ حالانکہ بی ایس پی نے بی جے پی کو خوش کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے، لیکن ایس پی اور کانگریس کے ٹکٹوں کی تقسیم میں ان کی دانشمندی نظر آئی اور اسی کا نتیجہ رہا  کہ بڑی تعداد میں سماجوادی اور کانگریس کے امیدوار کامیاب ہوئے۔

وہیں دوسری طرف بی جے پی نے اشتعال انگیز بیانات کے ریکارڈ قائم کردیا،اس کے باوجود اس بار اقلیتی برادری کے کسی لیڈر، مذہبی رہنما یا سیاست دان نے کوئی جارحانہ بیان نہیں دیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے ذہنوں میں صرف ایس پی-کانگریس اتحاد کا امیدوار ہی تھا، جس کی وجہ سے  بی جے پی کا قلعہ تباہ گیا۔ اتر پردیش بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اس کی وجہ سے امت شاہ کی چانکیہ پالیسی کام نہیں کر سکی اور نہ ہی مودی-یوگی جوڑی کوئی  کامیابی دلا پائی۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts

Agreements signed with Kuwait: پی ایم مودی کے دورے کے دوران کویت کے ساتھ دفاع، ثقافت، کھیل سمیت کئی اہم شعبوں میں معاہدوں پرہوئے دستخط

ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…

8 hours ago

بھارت کو متحد کرنے کی پہل: ایم آر ایم نے بھاگوت کے پیغام کو قومی اتحاد کی بنیاد قرار دیا

مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور

9 hours ago