قومی

Bharat Express Urdu Conclave: بولنے کی آزادی دنیا کے دوسری ملکوں سے کہیں زیادہ ہندوستان میں ہے،بھارت ایکسپریس اردو کانکلیو سےگروپ منیجنگ ایڈیٹر رادھے شیام رائے کا خطاب

بھارت ایکسپریس نیوز نیٹ ورک کی اردو ٹیم کی جانب سے قومی دارالحکومت دہلی میں اردو صحافت پر مبنی ‘بزمِ صحافت’ اردو کانکلیو کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام میں صحافت، تعلیم اور سیاست سے وابستہ کئی نامور شخصیات نے شرکت کی۔ بھارت ایکسپریس نیوز نیٹ ورک کے گروپ منیجنگ ایڈیٹر رادھے شیام رائے بطور میزبان پروگرام کے آغاز سے اختتام تک موجود رہے۔

اس دوران گروپ مینیجنگ ایڈیٹر رادھے شیام رائے نے کانکلیو سے خطاب بھی کیا۔پروگرام کے اختتام پر شکریہ کی تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ  مجھے پروگرام میں شرکت کرکے بہت خوشی ہورہی ہے، کیونکہ ہمارے اساتذہ اور پروفیسروں نے جے این یو میں داخلے کے وقت ہمیں بتایا تھا کہ ہندی اور اردو دو مختلف زبانیں نہیں ہیں۔ ان کاآپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ اسی لیے ہم نے ہندی اور اردو ایک ساتھ پڑھی اور سیکھی۔ اگرچہ میں اس سطح پر اردو سیکھنے کے قابل نہیں تھا، لیکن ان کا کہنا تھاکہ اردو آتے آتے آتی ہے، لیکن شاید میں اس کیلئے  اتنی کوشش نہیں کر سکا۔

بھارت میں بولنے کی مکمل آزادی

رادھے شیام رائے نے مزید کہا کہ لوگوں کے ذہنوں میں صحافت کے حوالے سے بہت سے سوالات ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ چوتھا ستون اتنا مضبوط نہیں ہے، اگر آزادی رائے کا ڈیٹا نکالا جائے تو ہماری موجودگی کہیں نہ کہیں 159-160ویں نمبر پر ہوتی ہے، لیکن ہندوستان بہت بڑا ملک ہے۔ یہ ایک بہت ہی شاندار ملک ہے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمیں دنیا کے کسی اور ملک میں اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی سے کہیں زیادہ آزادی اپنے ملک میں ملی ہوئی ہے۔گروپ منیجنگ ایڈیٹر رادھے شیام رائے نے کہا کہ امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے لیکن وہاں کی صحافت کی حالت بہت پہلے سے ہی خراب ہے۔ جب ہم زرد صحافت کی بات کرتے ہیں تو اورسن ویلز نے کئی دہائیاں قبل ایک فلم بنائی تھی، سٹیزن کین، جب آپ یہ فلم دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ صحافت نے اقتدار کو بدلنے کے لیے کس طرح اپنا موقف اختیار کیا۔ ایسی صورت حال ہمارے ملک میں ابھی تک نہیں آئی۔ صحافیوں کو یہاں بہت مواقع ملے اور بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔

صحافیوں کو کسی کی ضرورت نہیں

رادھے شیام رائے نے کہا کہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں کے صحافی ملک کو خوشحال بنانے کے لیے خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ صحافت کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر پیشے سے وابستہ افراد کو صحافیوں کی ضرورت ہے۔ کھلاڑی ہو،سیاسی  لیڈر ہو، اداکار ہو، مافیا ہو، تاجر ہو، سب کو صحافیوں کی ضرورت ہے، لیکن صحافیوں کوکسی کی ضرورت نہیں ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts

Reaffirming Gandhi ji’s Global Relevance: گاندھی جی کی عالمی مطابقت کی تصدیق: پی ایم مودی کا بین الاقوامی خراج تحسین

12 جولائی 2015 کو، وزیر اعظم نے بشکیک، کرغزستان میں مہاتما گاندھی کے مجسمے کی…

9 hours ago