نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے قومی صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے عام بجٹ میں اقلیتی طبقہ کو پوری طرح نظر انداز کیے جانے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اقلیتوں کے ترقی سے متعلق کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ اقلیتوں کے لئے مجموعی بجٹ 3183 کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے جوکہ عبوری بجٹ کے برابر ہے۔ عبوری بجٹ پیش کرنے کے دوران وزارت برائے اقلیتی امور کا مجموعی بجٹ پہلے ہی کم کر 3183 کروڑ روپے ہوگیا تھا جوکہ مالی سال2022-23 میں 5020 کروڑ روپے تھا۔ جبکہ مشاورت کے رکن اور ماہر اقتصادیات جناب ڈاکٹر جاوید عالم خان نے اس سلسلے میں کہا کہ بجٹ تخفیف کے بارے میں مرکزی وزارت برائے خزانہ کا یہ کہنا تھاکہ ضلعی اور صوبوں کے سطح پر نافذ کی جارہی اسکیمیں بہتر ڈھنگ سے مختص بجٹ خرچ نہیں کر پارہی ہیں،اسی لئے مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ میں تخفیف کی گئی ہے۔
دراصل مجموعی بجٹ تخفیف کی اہم وجہ کئی ساری اقلیتی اسکیموں کو بند کردینا ہے جیسے کہ پری میٹرک اسکالرشپ جو پہلے درجہ 1 سے 10 تک دی جارہی تھی وہ اب 9 اور 10 کے طلباء کو ہی فراہم کی جارہی ہے۔ مدرسہ جدید کاری اسکیم، مولانا آزاد فیلوشپ، نئی اڑان اور مولانا آزاد فاؤنڈیشن کو مکمل طور سے بند کردیا گیا ہے۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ 2022-23 کے مقابلے تقریباً 40 فیصد کم ہوگیاہے۔
صدر مشاورت نے کہا ہے کہ اقلیتی طبقے کو یہ امید تھی کہ 23 جولائی کو مکمل بجٹ پیش کرنے کے وقت مرکزی وزیر خزانہ اپنی تقریر میں ملک کے عوام کے سامنے 2047 تک ہندوستان کو’وکست بھارت‘ بنانے کا ایجنڈا ضرور پیش کریں گی لیکن ’وکست بھارت‘ کے اعلانات میں ملک کی کل آبادی میں 20 فیصد اقلیتی طبقے کی ترقی کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے اور اقلیتوں کے بجٹ کا تناسب مجموعی بجٹ میں اس سال مزید کم ہو کر.06 0فیصد سے بھی کم ہوگیا ہے۔ اس بجٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اقلیتوں کو’وکست بھارت‘ کی مہم میں شامل کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے وزارت برائے اقلیتی امور کے بجٹ میں اضافہ کرکے دلتوں اور آدی واسیوں کے مختص بجٹ کے برابر رکھنا ضروری ہے۔
صدر مشاورت جناب فیروز احمد ایڈو کیٹ نے مطالبہ کیا کہ2022-23 میں اقلیتی وزارت کی جن اسکیموں کو بند کیا گیا تھا ان کو فی الفور بحال کرنی کی اشدضرورت ہے۔ اسکالرشپ اسکیموں میں اہلیت، مالی تعاون کی مقدار اور کوٹہ یا اسکالرشپ کے نمبرات میں 2008 سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اس لیے اس میں مزید اصلاح کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے 15 نکاتی پروگرام کو دلتوں اور آدی واسیوں کیلئے چلائے جارہے سب پلان کے طرز پر شروعات کی گئی تھی لیکن اس کے نفاذ کی صورتحال بہت خراب ہے۔ لہٰذا 15 نکاتی پروگرام کے بہتر نفاذ کیلئے مختص بجٹ میں اضافہ اور مانیٹرنگ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
بھارت ایکسپریس۔
روپ وے پراجیکٹ پر وشنو دیوی سنگھرش سمیتی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تشکیل…
اپیندر رائے نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’’چیف…
ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…
وزیر اعظم نریندر مودی کا کویت کا دو روزہ دورہ ختم ہو گیا ہے اور…
مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور
بہار میں گرینڈ الائنس حکومت کے قیام کے بعد خواتین کو 2500 روپے ماہانہ دینے…