قومی

Places of Worship Act 1991: پلیسیزآف ورشپ ایکٹ کے قانونی جوازپرسپریم کورٹ میں ہوگی سماعت، جمعیۃ علماء ہند نے داخل کی ہے عرضی

نئی دہلی: پلیسیزآف ورشپ ایکٹ 1991 کے قانونی جوازسے متعلق سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے اور عبادت گاہوں سے متعلق قانون موجود ہونے کے بعد بھی اس میں مداخلت کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے یہ عرضی داخل کرکے سپریم کورٹ میں سماعت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس عرضی پر سماعت کے لئے چیف جسٹس سنجیوکھنہ، جسٹس پی وی سنجے کماراورجسٹس منموہن کی تین ججوں کی بینچ بیٹھ گئی ہے۔ اب یہ بینچ اس بات کودیکھے گی کہ کیا پلیسیزآف ورشپ ایکٹ موجود ہونے کی صورت میں عبادت گاہوں سے متعلق سروے کے لئے داخل کی گئی عرضیوں پرسماعت کی جانی چاہئے یا نہیں۔

اطلاعات کے مطابق، عدالت ایک ایک کرکے سامنے موجود سبھی معاملوں کی سماعت کرے گی۔ ایسے میں پلیسزآف ورشپ ایکٹ، 1991 سے متعلق معاملہ-44 نمبر آنے پرہی سنی جائے گی۔ ایودھیا کے بابری مسجد-رام جنم بھومی مسجد تنازعہ کے علاوہ دیگر سبھی معاملوں کو یہ قانون الگ نظریے سے دیکھنے کی وکالت کرتا ہے۔

کیا ہے پلیسیزآف ورشپ ایکٹ، 1991؟

پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت کے دوران 1991 میں یہ قانون بنا تھا۔ اس وقت کے تحت یہ التزام کیا گیا کہ 15 اگست، 1947 سے پہلے وجود میں آئے کسی بھی مذہبی مقام کی شکل سے کوئی چھیڑچھاڑ نہیں کی جائے گی۔ ایسا کرنے پرسزا کا بھی التزام کیا گیا، جوایک سے لے کر تین سال تک کی تھی۔ چونکہ ایودھیا کے بابری مسجد-رام جنم بھومی تنازعہ قانون بننے سے بہت پہلے ہی سے عدالت میں تھا، اس لئے اس معاملے کو قانون سے الگ رکھا گیا۔

دراصل، بابری متھرا شاہی عیدگاہ، گیان واپی مسجد کے بعد ملک میں سینکڑوں مساجد یا عبادت گاہوں کے سروے سے متعلق درخواستیں داخل کی گئی ہیں جبکہ پلیسیزآف ورشپ ایکٹ 1991 میں اس بات کا ذکر ہے کہ 1947 کے وقت کی جو عبادت گاہیں ہیں، ان پرکسی طرح کی چھیڑچھاڑ نہیں کی جائے گی۔ صرف اس قانون سے بابری مسجد-رام مندرکوالگ رکھا گیا تھا، لیکن پورے ملک میں ایک طرح سے سروے کرانے اورمسجد کے نیچے مندرہونے کے دعوے کئے جانے لگے ہیں۔ اس پرجمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند نے داخل کی ہے عدالت میں عرضی

پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے گئے پلیسیزآف ورشپ ایکٹ کے باوجود کئی عبادت گاہوں کے سروے سے متعلق عرضیاں داخل کی گئی ہیں اور عدالتوں نے اسے سماعت کے لئے قبول بھی کیا ہے، اس کے بعد مسلم طبقے میں تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ اگریہ معاملہ اب نہیں رکا تو پھر یہ سلسلہ بہت بڑھتا جائے گا۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس کے لئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ ہندو فریق کی طرف سے اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مطالبہ کرنے والے ہندو عرضی گزاروں میں وشوبھدر پجاری پروہت مہاسنگھ، ڈاکٹر سبرامنیم سوامی، اشونی اپادھیائے، کرونیش کمارشکلا اور انل کمار ترپاٹھی شامل ہیں۔

Nisar Ahmad

Recent Posts