قومی

Oppn Slams PM Modi For Relaxing Import Duty On US Apples: بائیڈن کو خوش اور امریکی کسانوں کو مالا مال کرنے کیلئے پی ایم مودی نے سیب کی صنعت کو کردیا قربان:اپوزیشن

مرکزی حکومت نے کئی امریکی مصنوعات جیسے چنے، دال اور سیب پر امپورٹ ڈیوٹی 35 فی صد سے 15 فی صد کر دی ہے۔ یہ ٹیکس ابتدائی طور پر 2019 میں امریکہ کی جانب سے اسٹیل اور ایلومینیم اشیاء پر محصولات بڑھانے کے فیصلے کے جواب میں عائد کیے گئے تھے۔ یہ ڈیوٹی اصل میں 28 امریکی مصنوعات پر عائد کی گئی تھی۔ مرکزی سرکار کی طرف سے سیب پر  20 فیصد ٹیکس کم کرنے کے فیصلے سے جموں کشمیراور ہماچل کی سیب منڈیوں میں تشویش کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ فروٹ انڈسٹری سے جڑے ہوئے لوگ حکومت کے اس فیصلے سے کافی ناراض ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی  سرکار سے اس فیصلے کو واپس لینے کی مانگ کررہی ہیں ۔

جموں کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ  محبوبہ مفتی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ  اپنے آپ میں بڑا مذاق ہے جو وزیراعظم نریندر مودی نے کیا ہے۔ یہ میک ان انڈیا،میڈ ان انڈیا،خود کفیل ہندوستان ان تمام منصوبوں پر یہ فیصلہ ایک زبردست تماچہ ہے۔یہاں جموں کشمیر کی جو فروٹ انڈسٹر ہے اس پر اس کا بڑا اثر پڑے گا۔ یقینی طور پر ہماچل کی منڈی پر بھی اثر پڑے گا لیکن جموں کشمیر کے پاس واحد ایک انڈسٹری فروٹ کی ہے اور کوئی دوسری انڈسٹری ہمارے پاس ہے نہیں اور گزشتہ 30-40 برسوں  میں کشمیر کو اسی انڈسٹری نے زندہ رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب مفتی سعید  وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے اس پر خاص توجہ دی اور اس کے حق میں کئی اہم فیصلے لئے چاہے اس کیلئے ٹول ٹیکس معاف کرنا ہو یا کئی اسکیموں کو لانچ کرنا ہو وغیرہ وغیرہ۔

محبوبہ مفتی نے مزید کہا کہ  میں سمجھتی ہوں کہ مودی جی نے بائیڈن کو خوش کرنے کیلئے  جموں کشمیر کی عوام کے خون پسینے  اور آنسوں سے لت پت  ایک تحفہ دیا ہے۔ یقینی طور پر اس فیصلے سے ہماری معیشت کو بہت زیادہ نقصان ہوگا اور مجھے لگتا ہے کہ جان بوجھ کر حکومت ایسا کررہی ہے چونکہ گزشتہ سال بھی فروٹ سے لدے ہوئے ٹرک کئی دنوں تک راستے میں پھنسے رہے،جس کی وجہ سے سارے پھل خراب ہوگئے اور جس کی قیمت منڈی میں 1400 روپئے پیٹی ملنی  تھی اس کو 200 روپئے بھی نہیں ملی۔یعنی اس کے بعد کئی لوگوں نے اپنے پھل کو سڑکوں پر پھینک دیا۔

سابق وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ بی جے پی حکومت کی ایک سازش ہے کہ ہماری  معیشت کا سب سے بڑا حصہ جو فروٹ انڈسٹری ہے اس کو ختم کردیا جائے اور یہاں لوگوں کو صرف سیاحت پر منحصر کردیا جائے تاکہ سیاحت کا کنٹرول ان کے ہاتھوں میں رہے ،وہ جب چاہیں گے سیاح آئیں گے جب چاہیں گے سیاح نہیں آئیں گے۔ اس کی وجہ سے وہ جب چاہیں گے تب جموں کشمیر کے لوگ کھانا کھائیں گے اور جب چاہیں گے ٹورزم کا نل بند کرکے جموں کشمیر کی عوام کو بھوکہ کردیں گے۔

محبوبہ مفتی نے کہا کہ میری لوگوں سے یہی گزارش ہے کہ وہ ان باتوں کو سمجھیں کہ  صرف سیاحت پر منحصر کرنے کی کوشش ہورہی ہے اس میں نہ پھنسیں ،صرف سیاحت پر منحصر نہ رہیں بلکہ اور بھی دوسرے کام کریں اور فروٹ انڈسٹری کو زندہ رکھنے  کی کوشش کریں ۔ پی ڈی پی صد رنے کہا کہ امریکہ میں فروٹ انڈسٹری کو سبسڈی ملتی ہے۔اس لئے فروٹس پر ان کی لاگت ہمارے مقابلے میں کم ہوتی ہے چونکہ ہمیں کسی چیز پر سبسڈی نہیں ملتی۔اس کے باوجود  ہماری یہ انڈسٹری چل رہی ہے اور ایسے میں سرکار نے امریکی سیب پر ٹیکس کم کرکے  جموں کشمیر کے لوگوں پر ،فروٹ گروور کے گلے پر چُھڑی چلائی ہے۔

نیشنل کانفرنس (این سی) کے رہنما فاروق عبداللہ نے بھی اس اقدام پر مرکز کی تنقید کی اور کہا کہ اس نے جموں و کشمیر کی معیشت پر اس کے اثرات کے بارے میں نہیں سوچا۔امریکہ کو خوش کرنے کے لیے، وہ مقامی کاشتکاروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میں حکومت ہند سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جس سے یہاں پہلے سے موجود غربت میں اضافہ ہو اور ہم ایک اور بحران میں پھنس جائیں۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں، اگر حکومت ہماری بات نہیں ماتی تو ہم سڑکوں پر آکر احتجاج کریں گے۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ امریکہ اور دوسرے ملکوں کوخوش کرنے کیلئے یہاں کے لوگوں کو تکلیف  میں ڈالنے کا کیا مطلب ہے؟ ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ  مرکز کی سرکار پہلے جموں کشمیر کے بارے میں سوچے گی ،اگر یہاں کے بارے میں بھی نہیں سوچے گی تو کم سے کم اتراکھنڈ اور ہماچل کے بارے میں سوچے گی۔ لیکن جموں کشمیر ،اتراکھنڈ ،ہماچل سبھوں کو ڈبو کے رکھا ہوا ہے۔ہمیں باہر کے سیب ،اکھروٹ بادام نہیں چاہیے ،ہمارے اپنے بہت اچھے ہیں۔اب باہر کے ملکوں سے تالی بجوانے کیلئے یہاں کے لوگوں  کو تکلیف میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وہیں کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے پوچھا کہ کیا حکومت ہندوستان میں سیب کے کاشتکاروں کو ریلیف دینا چاہتی ہے یا امریکی کسانوں کو؟ مرکزی حکومت کے اس فیصلے سے (امریکی سیبوں کی) درآمد آسان ہو جائے گی اور وہ آسانی سے فروخت ہو سکیں گے۔ شملہ میں سیب کی خریداری کی قیمتیں بڑے صنعت کاروں نے کم کر دی ہیں۔ جب یہاں سیب کے کاشتکار پریشان ہیں تو کس کی مدد کی جائے؟ ہندوستانی کسانوں کی، یا امریکی کسانوں کی؟

دریں اثنا، کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینٹ نے پریس کانفرنس کرکے مرکزی سرکار کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا  اور کہا کہ ہماچل پردیش میں 10 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، جہاں جی ڈی پی کا تقریباً 14 فیصد سیب کے باغات سے آتا ہے۔آج وہاں کے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے، لیکن پی ایم مودی واشنگٹن سیب پر درآمدی ڈیوٹی کم کر کے 5 لاکھ سے زیادہ سیب کے کسانوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔

اب اس معاملے پر مرکزی حکومت کی وضاحت سامنے آئی ہے۔ مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ جون 2023 میں  باہمی طور پر متفقہ حل کے ذریعے امریکہ اور بھارت کے بیچ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے چھ زیرالتوا تنازعات کو حل کرنے کے فیصلے کے ساتھ بھارت نے  نوٹیفکیشن نمبر53/2023 کے ذریعے سے سیب ،اکھروٹ اور بادام کے ساتھ 8 امریکی پیداوار پر اضافی چارج واپس لے لیا ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts

Reaffirming Gandhi ji’s Global Relevance: گاندھی جی کی عالمی مطابقت کی تصدیق: پی ایم مودی کا بین الاقوامی خراج تحسین

12 جولائی 2015 کو، وزیر اعظم نے بشکیک، کرغزستان میں مہاتما گاندھی کے مجسمے کی…

7 hours ago