-بھارت ایکسپریس
بنگلورو: لوک سبھا الیکشن 2024 کی تیاریاں جاری ہیں۔ برسراقتداراور اپوزیشن جماعتوں نے اس کے لئے حکمت عملیاں تیار کی ہیں، لیکن ابھی سب کی نظریں پانچ ریاستوں کے حالیہ الیکشن پرہے، جسے کانگریس اوربی جے پی دونوں کے لئے سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسی دوران کرناٹک کی سیاست میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چلنے کی خبرآرہی ہے، لیکن اس سے کانگریس کی حکومت گرسکتی ہے یا بی جے پی ایک بار پھر واپسی کرسکتی ہے، یہ کہنا ابھی آسان نہیں ہے۔
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کانگریس کی اندرونی گروپ بازی کی وجہ سے یا پھر مہاراشٹرکے طرزپرکانگریس میں ٹوٹ کی خبر ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا جوڑ توڑ کرکے مہاراشٹر کی طرح کرناٹک میں اقتدار کی تبدیلی ہوسکتی ہے؟ رمیش جرکی ہولی کے دعوے کو سنجیدگی سے اس لئے لیا جا رہا ہے، کیونکہ 2019 میں آپریشن کمل کے ذریعہ کانگریس اور جے ڈی ایس کے جن 17 اراکین اسمبلی سے استعفیٰ لے کرانہیں بی جے پی میں شامل کیا گیا تھا، اس مہم میں رمیش جرکی ہولی نے اہم کردارنبھایا تھا۔ حالانکہ اس بار وہ اس میں کتنا کارگرثابت ہوں گے، یہ اس بار بہت آسان نہیں ہوگا۔ قابل ذکرہے کہ کرناٹک اسمبلی میں 225 اراکین ہیں۔ (ایک نامزد-اینگلو انڈین) یعنی حکومت بنانے کے لئے 113 اراکین چاہئے۔ کانگریس کے پاس 135 اراکین اسمبلی ہیں۔ بی جے پی کے 66، جے ڈی ایس کے 19، آزاد اراکین اسمبلی 2 اور دیگر 2 اراکین ہیں۔
بی جے پی اور جے ڈی ایس کے درمیان لوک سبھا الیکشن کے لئے اتحاد ہے۔ سیٹ شیئرنگ کے لئے بات چیت چل رہی ہے۔ بی جے پی کے 66 اور جے ڈی ایس کے 19 اراکین اسمبلی مل کرحکومت بنانا چاہیں تواس اتحاد کو 113 کے کرشمائی اعدادوشمار کو حاصل کرنے کے لئے 28 دیگراراکین اسمبلی کی ضرورت ہوگی۔ یعنی کانگریس سے اس اتحاد کو28 اراکین اسمبلی کو توڑنا ہوگا۔ کانگریس کے 135 اراکین اسمبلی ہیں۔ ایسے میں پارٹی تبدیل کرنے کے تحت 28 اراکین اسمبلی کی رکنیت ختم ہوجائے گی، پھرانہیں الیکشن کا سامنا کرنا پڑے گا اور سبھی 28 اراکین اسمبلی کے لئے پھر سے الیکشن میں جیت حاصل کرنے کی راہ آسان نہیں ہوگی۔
دوسرا چیلنج یہ ہے کہ 76 کروڑ روپئے کی آمدنی سے زیادہ جائیداد کا معاملہ، جس کی جانچ سی بی آئی کر رہی ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو تین ماہ میں جانچ مکمل کرکے رپورٹ طلب کیا ہے۔ اس معاملے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے انہیں 2019 میں گرفتار بھی کیا تھا۔ فی الحال وہ ضمانت پر ہیں۔ ڈی کے شیو کمار کو معلوم ہے کہ قصوروار پائے جانے پرسزا ختم ہونے کے بعد 6 سالوں تک وہ الیکشن نہیں لڑپائیں گے۔ ایسے میں پارٹی کی حمایت انہیں مستقبل میں فائدہ پہنچائے گا۔ اس لئے اپنے تازہ بیان میں ڈی کے شیو کمار نے کہا کہ بے وجہ کی باتیں پاور شیئرنگ سے متعلق کی جار ہی ہیں، جس کی ضرورت نہیں ہے۔
میں وزیراعلیٰ بنا رہوں گا: سدارمیا
سال 2023 میں ہوئے اسمبلی الیکشن کے بعد جس دن سدارمیا نے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لیا تھا، تبھی سے کہا جا رہا ہے کہ پہلے ڈھائی سال سدارمیا اور بعد کے ڈھائی سال ڈی کے شیو کمار رہیں گے۔ ڈی کے شیو کمار کے بیان سے ٹھیک پہلے وزیراعلیٰ سدارمیا کا بیان آیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت 5 سال کی اپنی مدت مکمل کرے گی اور میں وزیراعلیٰ بنا رہوں گا۔ پاور شیئرنگ کی بات بے بنیاد ہے۔
-بھارت ایکسپریس
سومی علی نے جواب دیا، 'ان کو قتل کیا گیا تھا اور اسے خودکشی کا…
سی ایم یوگی نے عوام سے کہا کہ انہیں اپنی طاقت کا احساس دلائیں، ذات…
اس سال کے شروع میں اجیت پوار نے این سی پی لیڈر شرد پوار کو…
سنیل گواسکر نے کہا ہے کہ اگر روہت شرما آسٹریلیا کے خلاف پہلا ٹیسٹ نہیں…
اس سے قبل 22 مارچ کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے یوپی…
چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے معاشی ڈھانچے (نظام)میں نجی شعبے کی اہمیت ہے۔…