بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
تحریر – اسٹیو فاکس, کیلیفورنیا کے وِنچورا میں مقیم ایک آزاد قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں
حقیقت کو افسانے سے الگ کرنے والی لکیر کا دھندلا پن ایک اہم چیلنج پیش کرتا ہے وہ بھی تب جب دنیا بھر کے ممالک اپنے معاشروں کو درپیش اہم مسائل کو حل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہوں۔امریکی محکمہ خارجہ کے ’’ کواڈ میں گمراہ کن معلومات کی نشاندہی اور تدارک‘‘ کے موضوع پر حال میں منعقد ہوئے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) کے شرکا نے اسی معاملے پر غور و خوض کیا۔ اس پروگرام نے کواڈ ممالک کے ابھرتے ہوئے قائدین کو ایک جگہ جمع ہو کر کام کرنے کا موقع فراہم کیا۔ واضح رہے کہ کواڈ آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور امریکہ کی ایک مشترکہ پہل ہے جو ایک کھلے، مستحکم اور خوشحال ہند بحرالکاہل خطے کی حمایت کے لیے پرعزم ہے۔
آئی وی ایل پی شرکاء نے واشنگٹن ڈی سی، مسوری میں سینٹ لوئی ، واشنگٹن میں سیئٹل اور کیلیفورنیا میں سان فرانسسکو کا سفر کیا۔ انہوں نے گمراہ کن معلومات اور فرضی خبروں کا پتہ لگانے اور ان کا مقابلہ کرنے کے رجحانات اور ٹیکنالوجیوں کا جائزہ لیا۔ پروگرام میں گمراہ کن معلومات کو روکنے کے لیے گمراہ کن معلومات پر مبنی مہمات کی سنگینی، حقائق کی جانچ پڑتال، تحقیقاتی صحافت اور خصوصی پولنگ جیسے موضوعات کو اجاگر کیا گیا۔ شرکاء نے اپنے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ گمراہ کن معلومات کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنے نیز فرضی خبروں اور گمراہ کن معلومات کے خلاف جنگ میں سرکاری اداروں، غیر سرکاری تنظیموں، درس و تدریس سے وابستہ افراد اور روایتی و سوشل میڈیا کے کردار کو تلاش کرنے کی حکمت عملیوں پر بھی بات کی۔
نئی دہلی میں واقع منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ برائے دفاعی تحقیق و تجزیہ کی فیلو شروتی پنڈلائی، جنہوں نے اس پروگرام میں شرکت کی، کہتی ہیں ’’یہ ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کے مسائل سے نمٹنے میں کامیابی اور ناکامی میں ایمانداری کا ایک بہت اچھا اور مفید تعارف تھا۔‘‘
’مس انفارمیشن‘ سے مراد ایسی معلومات ہیں جو کہ گرچہ درست نہ ہوں مگر اس کے فراہم کرنے والے شخص یا ادارے کو درست لگتی ہوں۔ ’ڈِس انفارمیشن‘ سے مراد ایسی گمراہ کن معلومات ہیں جو جان بوجھ کر ہیرا پھیری کرنے یا موصول کنندگان کو نقصان پہنچانے کی نیت سے پھیلائی جاتی ہیں۔
وجوہات اور اثرات
حقیقت کو افسانے سے الگ کرنے والی لکیر کے دھندلے پن کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک امریکی غیر منافع بخش عالمی پالیسی تھنک ٹینک رَینڈ کارپوریشن کے ایک مطالعہ کے مطابق ان وجوہات میں بعض معاملات میں ہمارے انفرادی علمی تعصبات، معلومات کے نظام میں تبدیلیاں جیسے سوشل میڈیا کے استعمال میں بے تحاشہ اضافہ اور خبروں کی معاشیات میں تبدیلیاں، نیز سیاسی اور سماجی پولرائزیشن شامل ہیں۔
رَینڈ کے اس مطالعہ میں یہ بھی پایا گیا ہے کہ انفرادی طور پر عوام کو حقائق کے طور پر پیش کی جانے والی آراء کا بڑھتا ہوا حجم اداروں پر عوامی اعتماد کو ختم، سیاسی پولرائزیشن کے فروغ کا کام اور ایک صحت مند جمہوریت کے لیے درکار اظہار رائے کی آزادی کو کمزور یا سلب کرنے کا کام کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بیگانگی یا علاحدگی کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ اگر آراء کو حقائق پر فوقیت دی جائے تو اس سے انسانوں پر بہت غلط نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس مطالعہ میں کووِڈ ۔۱۹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بیماری کے بارے میں حقائق کو مسترد کرنے کی وجہ سے یہ صحت کے مسائل میں اضافے کا سبب بنا ہو۔
ایک فعال طریقہ کار
اس مسئلے کا تعلق سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر سے ہے جہاں مواد یا اسے فراہم کرنے والے افراد اور گروہوں کی مناسب نگرانی کے بغیر گمراہ کن معلومات دوسروں تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔
پنڈلائی کہتی ہیں ’’سوشل میڈیا کو برے یا اچھے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ برے لوگ عام طور پر گمراہ کن معلومات کی رسانی میں بہتر ہوتے ہیں لہٰذا اچھے لوگوں کو صرف یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ معلومات صحیح نہیں ہیں۔‘‘
پنڈلائی ایک معروف انگریزی نیوز نیٹ ورک میں بطور نیوز اینکر اوربراڈکاسٹ جرنلسٹ کام کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل اخباروں اور نیوز چینلوں میں غلط اور فرضی خبر کو پرکھنے کے بہت کم حفاظتی نظام ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ قارئین اور ناظرین کو خود یہ طے کرنے میں زیادہ فعال ہونا پڑے گا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔
شروتی بتاتی ہیں ’’افواہیں خبروں کے مقابلہ زیادہ دنوں تک ٹکتی ہیں۔ اور (صحافتی اداروں میں) حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والے ہوتے تھے جو خبروں کی اشاعت سے پہلے ان کا جائزہ لیتے تھے۔ مگر آج کے دور میں معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ لوگوں کو کئی ذرائع سے موصول ہونے والی خبریں پڑھنی پڑتی ہیں تب جا کر انہیں اصل حقیقت سے آشنائی ہوتی ہے۔‘‘
پوائنٹر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بھارت جیسے متنوع ملک میں غلط معلومات کی ترسیل کے خلاف جنگ اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ پوائنٹر فلوریڈا میں واقع ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو حقائق کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور میڈیا خواندگی و صحافتی اخلاقیات کی تربیت دیتا ہے۔
پوائنٹر انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ایک مضمون کے مطابق بھارت میں اس وقت کم و بیش ۸۲۵ ملین انٹرنیت صارفین ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے ’’سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی تمام گمراہ کن معلومات کی تصدیق کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اس ملک کے لسانی، ثقافتی اور سیاسی تنوع کے سبب یہ کام اور بھی زیادہ مشکل بنتا ہے۔‘‘ بھارت کا آئین ۲۲ زبانوں کو تسلیم کرتا ہے۔ اس مضمون میں مزید لکھا گیا ہے ’’لہٰذا ایک یا دو زبانوں میں پھیلائی جانے والی گمراہ کن معلومات کو ختم کرنے سے ملک کی وسیع آبادی تک پہنچنے میں مدد نہیں ملتی۔‘‘
پنڈلائی زور دے کر کہتی ہیں ’’ذرائع ابلاغ کو بحیثیت مجموعی اور خبروں کے ہر ایک انفرادی صارف کو اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ معلومات کہاں سے آرہی ہیں۔ آئی وی ایل پی سے میں نے یہ سیکھا کہ امریکہ کی غیر معمولی صلاحیتوں میں سے ایک اس مسئلے سے نمٹنے میں ایمانداری ہے۔‘‘
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
ماروتی سوزوکی نے ایک اور تاریخی مقام حاصل کر لیا ہے کیونکہ وہ بیرون ممالک…
ملک کی راجدھانی دہلی میں موسمی تبدیلیوں کے درمیان فضائی آلودگی خطرناک سطح پر برقرار…
مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمد…
سٹی پیلس کے دروازے بند ہونے پر وشوراج سنگھ کے حامیوں نے ہنگامہ کھڑا کر…
حالانکہ اترپردیش پولیس نے کہا کہ شاہی جامع مسجد کے صدر کو ثبوتوں کی بنیاد…
اشونی ویشنو نے کہا کہ مرکزی کابینہ نے 2750 کروڑ روپے کی لاگت سے اٹل…