کانسٹی ٹوٹشن کلب آف انڈیا میں ممتاز مرحوم صحافی محفوظ الرحمن کی قومی وملی خدمات کے اعتراف میں اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے مذکورہ بعنوان ‘فروغ اردو میں صحافت کا کردار’ سینئر ادیب ودانشور پرفیسر عبدالحق کی صدارت میں 18 ویں محفوظ الرحمنٰ میموریل لیکچر کا شاندار انعقاد کیاگیا، جس میں معروف ادیبوں، دانشوروں اور سماجی شخصیات نے شرکت کرتے ہوئے محفوظ الرحمنٰ کی صحافتی خدمات پر روشنی ڈالی اور ان کے لئے دعائے مغفرت بھی کی۔
اس موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر عظیم دانشور پدم شری ڈاکٹر پروفیسر اخترالواسع نے شرکت کرتے ہوئے کہا کہ محفوظ الرحمنٰ کی صحافی وسماجی خدمات سنہری حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدوجہد آزادی اردو صحافت کے بغیر نامکمل تھا، اس کے علاوہ، وطن کی آزادی کے بعد غیر معمولی کردار اداکیا ہے، جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر اخترالواسع نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں موجودہ دور میں اردو اخبارات ورسائل خرید کے پڑھنے پر زور دینا چاہئے، تبھی ہم اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
مہمان ذی وقار کے طور پر قومی برائے فروغ اردو زبان کے نومنتخب ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے تقریب کے کنوینر ڈاکٹر سید احمد خان کی سماجی وصحافی خدمات کا اعتراف کیا او ر ان کی لمبی عمر کے لئے دعا کی۔
مہمان مکرم ہمالیہ ویلینس کمپنی کے ایم ڈی ڈاکٹر سید محمد فاروق نے تقریب کی ستائس کی اور کہا کہ اردو زبان کے ساتھ ہمیں اردو سے متعلق فارسی، عربی ودیگر زبانوں کو بھی سیکھنا چاہئے، یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مہمان اعزازی اردو اکادمی دہلی کے سابق وائس چیئرمین ڈاکٹر ماجد دیوبندی نے اپنے خیالات کااظہار کیا۔
وہیں خصوصی لیکچر پیش کرتے ہوئے مشہور صحافی معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اردو زبان اس ا س کے رسم الخط کو فروغ دینے میں اردو صحافت نے کلیدی کردار اداکیاہے، لہذا اردو زبان ہمیشہ صحافت کے شانے پر زندہ رہی ہے او ران ہی ادیبوں کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔ جنہوں نے اخبارات وجرائد کے ذریعہ عوام سے مکالمہ قائم کیا ہے، معصوم مرادآبادی نے یہ بھی کہا کہ آج کے دور میں اردو زبان کو فروغ دینے میں اخبارات وجرائد کلیدی کردار اداکررہےہیں ، لیکن جن سرکاری یا غیر سرکاری اداروں پر اردو کے فروغ کی ذمہ داری ہے، وہ اردو اخبارات وجرائد کے فروغ کی ذمہ داری سے غافل ہیں، البتہ اردو اکادمیوں، انجمنوں اور کونسلوں کا بجٹ ایسی سرگرمیوں پر خرچ ہوجاتا ہے کہ جن کا زبان کے فروغ سے محض رسمی رشتہ ہوتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اردو ادارے اردو اخبارات وجرائد کی بگڑتی ہوئی
صورت حال پر توجہ دیں تاکہ موجودہ بحرانی دور میں وہ مشکلات پر قابو پاسکیں۔
پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد جاوید رحمانی نے خوش اسلوبی سے انجام دیا، جب کہ پروفیسر محمد قدوائی ، مولوی محمد احمد نقشبندی ، محمد علی عادل علی خان دیگر نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے تقریب کے کنوینر ڈاکٹر سید احمد خان کی خدمات کی ستائش کی ، وہیں محفوظ الرحمنٰ کی صحافتی خدمات پر تفصیلی گفتگو کی او ر ان کے لئے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔ پروگرام میں حکیم عطا الرحمنٰ اجملی، حکیم آفتاب بھائی ، ابرار احمداجینی، محمد عمران قنوجی، ڈاکٹر ایم اے زید کے علاوہ دیگر شخصیات شریک رہیں ۔
بھارت ایکسریس
سردی کی لہر کی وجہ سے دہلی پر دھند کی ایک تہہ چھائی ہوئی ہے۔…
ڈلیوال کا معائنہ کرنے والے ایک ڈاکٹر نے صحافیوں کو بتایاکہ ان کے ہاتھ پاؤں…
سنبھل میں یو پی پی سی ایل کے سب ڈویژنل افسر سنتوش ترپاٹھی نے کہاکہ…
حادثے کے فوری بعد پولیس نے ڈمپر ڈرائیور کو گرفتار کر لیاہے۔ پولیس کے مطابق…
یہ انکاؤنٹر پیلی بھیت کے پورن پور تھانہ علاقے میں ہواہے۔پولیس کو اطلاع ملنے کے…
اللو ارجن کے والد نے کہا کہ فی الحال ہمارے لیے کسی بھی چیز پر…