قومی

Islamophobia in Muzaffarnagar’s School: یوپی کے اسکول میں اسلاموفوبیاکااثر، ٹیچر نے مسلم طالب علم کو ہندو طالب علموں سے جان بوجھ کر پٹوایا،ویڈیو وائرل

مذہبی منافرت اور اسلاموفوبیا آج اس تیزی سے پھیل رہا ہے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ جب مذہبی منافرت کی آگ پر زبردست سیاسی  روٹی بنتی ہو تو پھر سیاست بھی اس  آگ کے سہارے خوب ہوتی ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم بھائی چارے کا جنازہ نکل چکا ہے، ہندواور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی اتنی اونچی دیوار قائم کردی گئی ہے کہ موجودہ نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ آئندہ کی دو نسلیں بھی اس دیوار سے سرٹکراکر تباہ ہوجائیں گی اور آج کی سیاست  کی سب سے بڑی چاہت یہی ہے کہ سب مذہبی منافرت کی کھڑی کی گئی دیوار سے سر ٹکرائے اور تباہ ہوجائے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھرجس صحن سے ہندوستان کے مستقبل کو تیار کیا جاتا ہے، سجایاور سنوارا جاتا ہے اس صحن میں یہ مذہبی منافرت والا زہر کیسے پہنچ سکتا ہے ۔ کیسے ایک ٹیچر کے اندر اپنے طلبا میں بھی ہندو اور مسلمان کے چشمے سے دیکھنے کے سوچ پیدا ہوسکتی ہے اور کیسے ایک استاد اپنے ہی طالب علم سے اسکے مذہب کے نام پر اس قدر نفرت کرسکتی ہے کہ وہ دوسرے مذہب کے ماننے والے طالب علموں سے جان بوجھ کر سرعام اس کو زدوکوب کروائے۔ یہ ٹیچر کے لباس میں فٹیچر اور استاذ کے لباس میں شیطان  کا ہی رول ہوسکتا ہے جو تعلیم گاہ کے اندر بھی ایسی تعلیم دے جس کو ختم کرنے کیلئے تعلیمی ادارے قائم کئے گئے ہیں ۔

معاملہ یہ ہے کہ اترپردیش کے خبرپور گاوں میں ایک اسکول کے اندر ایک خاتون استاد مسلم طالب علم کو ہندو طالب علموں سے پٹوارہی ہے ،جس کی ویڈیو وائرل ہوگئی ہے، اس ویڈیو میں وہ خاتون ٹیچر نہ صرف ہندو بچوں سے مسلم طالب علم کو پٹوارہی ہے بلکہ دھیرے سے تھپڑ مارنے والے طالب علم پر غصہ بھی کررہی ہے، ساتھ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ میرا تو یہ ماننا ہے کہ جتنے بھی مسلم بچے ہیں سب کو وہاں  بھیج دو۔ ٹیچر کے لباس میں چوڑیل خاتون کا نام ترپتا تیاگی ہے  اور اسکول کا نام  نیہا پبلک اسکول ہے جو یوپی کے ضلع مظفرنگر کے گاوں خبرپور میں واقع ہے۔

ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے ایک آٹھ سال کے معصوم کو ایک خاتون ٹیچر دوسرے بچوں سے تھپڑ لگوا رہی ہے اور ساتھ میں قہقہے بھی لگ رہے ہیں ۔جس بچے کو تھپڑ مارا جارہا ہے اس کا نام التمش ہے ،اس کے والد کا نام محمد ارشاد ہے اورالتمش کی عمر محض آٹھ سال ہے۔ اس عمر میں بچوں کی بہترین تربیت سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے لیکن یوپی کے اسکول میں تربیت کے نام پر معصوم بچوں میں مسلمانوں سے نفرت کا بیچ ڈالا جارہا ہے۔ اس میں نقصان سماج کے ساتھ ساتھ ان ہندو بچوں کا بھی ہے جو اس اسکول میں زیر تعلیم ہیں اور انہیں مسلمانوں سے نفرت کا درس دیا جارہا ہے۔ یہ شرمناک حرکت یوپی کے اس معمولی کسان کے بیٹے کے ساتھ چوڑیل نما خاتون ٹیچر نے کی ہے جس کی ذمہ داری ماں کی طرح اچھی تربیت کرنے کی ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ان بچوں سے پہلے اس چوڑیل کو ہی تربیت کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ہندوستان کے مستقبل کو اس طرح  کے نفرتی سوچ سے اندھیرے میں نہ ڈال سکے۔

التمش کے والد کہتے ہیں کہ جب انہیں اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ، لیکن اس سے پہلے کے اس خاتون کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ،پولیس اور گاوں والوں نے مل کر سمجھوتہ کروادیا۔ ارشاد کہتے ہیں کہ وہ اس ٹیچر کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کریں گے چونکہ انہیں انصاف کی کوئی امید ہے ،البتہ انہوں نے اپنے بچے کا اس اسکول سے نام کٹوا دیا ہے اور اس کو نیہا پبلک اسکول جانے سے روک دیا ہے۔ اس پورے معاملے میں  ایک خبر یہ بھی ملی ہے کہ التمش کے والد نے جب معاملے کو پولیس تھانے میں پیش کیا تو وہاں پر اس خاتون ٹیچر نے ارشاد سے  پولیس کی موجودگی میں معافی مانگی، البتہ ارشاد نے پولیس کو یہ تحریر بھی دی کہ وہ اس ٹیچر کے خلاف کوئی شکایت نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔

اس پورے معاملے پر ایم آئی ایم چیف اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے این سی پی سی آر یعنی نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس اور این ایچ آر سی انڈیا کو سوالوں کے گھیرے میں کھڑا کردیا ہے۔ انہوں نے ان دونوں اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ باقی جگہ تو فوراً ایکشن لے لیتا ہے، یہاں کیا ہوگیا؟ ایک نوٹس تک جاری نہیں کیا۔ بچوں پر ظلم ہورہا ہے، لیکن پولیس ملزم کو جانے دیتی ہے،ایسے میں پولیس پر کاروائی کیوں نہیں ہوئی۔ بی جے پی کی مدھیہ پردیش سرکار نے ایک چھوٹی سی بات پر ایک اسکول پر بلڈوزر چلادیا تھا۔ یہاں ایک بچے کو اس کے مذہب کی بنیاد پر پیٹا جارہا ہے اور ایک مذمتی ٹوئٹ بھی نہیں آتا۔ نہ جانے کتنے مسلمان بچے زندگی بھر خاموشی سے ذلت برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بات عام ہے کہ اسکول میں مسلمان بچوں کو ’’جہادی‘‘ اور ’’پاکستانی‘‘ کہہ کر چھیڑا جاتا ہے۔ حکومت بچے کے خاندان کو معاوضہ دے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کرے۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts